social media or nayi guideline

سوشل میڈیا اور نئی گائیڈ لائن

تحریر: بیرسٹرحمید بھاشانی۔۔

سوشل میڈیا اور حقِ اظہارِ رائے کا آپس میں بہت گہرا اور پیچیدہ تعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے سامنے آنے سے اظہارِ رائے کی آزادی کو بہت تقویت ملی۔ اس سے پہلے اظہارِ رائے کے لیے عام دھارے کے میڈیا پر مکمل انحصار کیا جاتا تھا۔ یہ انحصار ارباب اختیار کے لیے حدود و قیود مقرر کرنے یا اسے پابند کرنے کا راستہ آسان کر دیتا تھا۔ سوشل میڈیا نے شروع میں اس صورتحال میں انقلابی تبدیلی پیدا کی‘ لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد کچھ تو سوشل میڈیا نے خود اپنے ایما پر، اور کچھ ارباب اختیار کے ایما پر خود اپنی آزادی کی حدود و قیود کا جائزہ لینا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارم نے وہی رہنما اصول اپنانے شروع کر دیے، جو ایک وقت میں عام دھارے کے میڈیا کے لیے ”گائید لائن‘‘ تھے۔ نئی صورت حال میں سوشل میڈیا کے ایک بڑے پلیٹ فارم فیس بک کو اس وقت یہ بہت بڑا سوال درپیش ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیس بک کے پلیٹ فارم پر آزادیٔ اظہارِ رائے اور نفرت آمیز اشتعال انگیزی پر مبنی مواد میں واضح فرق کیسے کیا جائے اور اس فرق پر مبنی واضح پالیسی کیسے تشکیل دی جائے‘ اور اس پالیسی کا فیس بک پر عملی اطلاق کیسے کیا جائے۔ اس سوال کی سنگینی کا احساس حال ہی میں اس پلیٹ فارم کے نگرانی بورڈ کے ممبران کے بحث مباحثے اور ان کے بیانات سے ہوتا ہے۔ یہ نگرانی بورڈ اپنے اجلاس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فیس بک کی طرف سے لگائی گئی پابندی کے فیصلے کا جائزہ لے رہا تھا۔ نگرانی بورڈ کافی غور و فکر کے باوجود تاحال یہ طے کرنے میں ناکام رہا ہے کہ وہ سیاسی رہنماؤں کی آزادیٔ اظہار اور نفرت آمیز اشتعال انگیزی کے درمیان توازن کیسے قائم کرے اور اس امر کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر کچھ سیاست دان وہ نفرت آمیز اشتعال انگیزی نہ پھیلا سکیں، جو سماج میں تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔

ٹرمپ کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے مذکورہ پلیٹ فارم نے بیس افراد پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا تھا۔ اس بورڈ میں دانشور، قانونی سکالرز، سیاسی و سماجی کارکنان سمیت ایک سابق وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔ بورڈ نے اپنے تازہ ترین اجلاس میں فی الحال فیس بک سے ٹرمپ کی بے دخلی اور ان کے اکائونٹ کی معطلی کے فیصلے کو برقرار رکھا، لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ پلیٹ فارم کو غیر مستحکم سیاسی حالات کی تیاری کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاست دانوں اور اربابِ اختیار کی طرف سے اظہارِ رائے اور اشتعال انگیزی جیسے امور کے بارے میں کمپنی کی پالیسیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ اہمیت صرف صدر ٹرمپ یا صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک ہی محدود نہیں۔ حال ہی میں دنیا بھر میں رونما ہونے والے غیر معمولی حالات و واقعات کی روشنی میں بھارت، برازیل، میانمار اور فلپائن سمیت کئی ممالک میں ان پالیسیوں کا واضح ہونا بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر قابل اعتماد اداروں کے تنقیدی جائزوں کے مطابق، ان ممالک میں حکمران سیاست کاروں نے نفرت پھیلانے یا غلط معلومات پھیلانے کے لیے اس سوشل نیٹ ورک کی طرف رجوع کیا۔ ان غلط معلومات اور نفرت انگیزی پر مبنی اشتعال انگیزی کے مہلک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

اس موضوع پر غور و خوض کرتے ہوئے بورڈ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ موجودہ دور میں فیس بک سیاسی گفتگو کیلئے عملی طور پر ناگزیر ذریعہ بن گیا ہے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی اظہار کی اجازت دے اور اس کے ساتھ دوسرے انسانی حقوق کو خطرات سے بچانے کے اقدامات کرے۔

بورڈ نے فیس بک کے اس عمل کو سراہا کہ اس نے چھ جنوری کو امریکی دارالحکومت پر حملے کے دوران ٹرمپ کے اقدامات کا جائزہ لے کر فوری اور دلیرانہ فیصلہ کیا اور صدر ٹرمپ پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ ایک ایسا ٹیسٹ تھا، جس کے تحت نفرت اور تشدد کو بھڑکانے اور آزادانہ تقریر کے حق کے درمیان فرق واضح کرنے میں مدد ملی۔

اس فیصلے میں تقریر کے سیاق و سباق اور ارادے، خود مقرر اور اس کی تقریر کا مواد، اس کی رسائی اور اس کے ذریعے پہنچنے والے ممکنہ نقصان کی نزاکت پر غور کیا گیا ہے۔ اس وقت صدر ٹرمپ نے ایک فیس بک ویڈیو میں مظاہرین سے کہا تھا کہ وہ ”بہت ہی خاص لوگ‘‘ ہیں، حالانکہ ان میں سے کچھ اس وقت تشدد پر اتر آئے تھے، اور امریکی دارالحکومت پر حملہ آور تھے۔ اس وقت ٹرمپ کے فیس بک اکاؤنٹ میں 35 ملین فالورز تھے۔

بورڈ نے طویل بحث مباحثے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ٹرمپ نے ”حملہ آوروں کی حمایت میں ایوان صدر کے مواصلاتی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا‘ اور تشدد کو ہوا دینے کے خلاف فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی‘ دوسری طرف بورڈ نے فیس بک پر بھی تنقید کی کہ اس نے ٹرمپ کی طرف سے فیصلے کے خلاف چارہ جوئی یا از سر نو درخواست کا طریقہ کار وضع نہیں کیا۔ اس نے فیس بک کو ٹرمپ کی حیثیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا ہے اور کمپنی کو بحرانوں سے نمٹنے کے لیے واضح پالیسی تیار کرنے کی اپیل کی ہے۔

ٹرمپ کی فیس بک سے معطلی پہلا موقع نہیں تھا جب فیس بک نے کسی صدر، وزیر اعظم یا ریاست کے سربراہ کو بلاک کر دیا۔ اس کے علاوہ مارچ میں، اس نے کوویڈ 19 میں غلط معلومات پھیلانے پر وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کو 30 دن کے لیے معطل کیا تھا۔ ان کی انتظامیہ نے اس عمل کو ”ڈیجیٹل استبداد پسندی‘‘ کہا تھا۔

چونکہ فیس بک اب معلومات کی گردش کا ایک اہم ترین ذریعہ بن گیا ہے، لہٰذا اس نے زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی ہے کیونکہ اس کی رائے میں سیاست دان جو کہتے ہیں وہ خبروں کا حامل اور حکومتوں کے کام کے لیے اہم ہے۔ اس طرح ارباب اختیار کو اپنی بات کرنے کی آزادی کے ساتھ ساتھ مخالف رائے پر پابندی پر بھی بہت زیادہ اختیار دے دیا گیا۔ سول سوسائٹی کے ایڈووکیٹٹس کا کہنا ہے کہ فیس بک سیاسی اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے تو کافی حد تک تیار ہے‘ لیکن دوسری طرف اس کے پاس آمرانہ حکومتوں کے ہتھکنڈوں اور آزادیٔ اظہارِ رائے کو دبانے کے متعدد طریقوں سے نمٹنے کے لیے کوئی ”ٹول کٹ‘‘ نہیں ہے۔

یہ معاملہ خاص طور پر بھارت میں کافی اہم ہے، جہاں صارفین نے فیس بک پر تنقید کی ہے کہ وہ حکمران سیاست دانوں کی جانب سے نفرت انگیز تقریر اور دیگر اقدامات پر سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کے معاملے میں بورڈ کے حکم کا مرکزی نقطہ اور نظریہ یہ ہے کہ ٹرمپ سمیت ہر فیس بک استعمال کنندہ ان اقدامات پر مکمل وضاحت کا مستحق ہے، جن کی وجہ سے ان پر پابندی لگتی ہے، اور ان اقدامات کا علم بھی ضروری ہے جو یہ پابندی ہٹانے کے لیے درکار ہیں۔

اقوام متحدہ کے بہت سے کنونشنز انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ان کنونشنز کی رو سے اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، اور اس طرح لوگوں کو فیس بک کے ذریعے یک طرفہ اور صوابدیدی طور پر پابندی کا نشانہ نہیں بننا چاہئے۔ سوشل میڈیا کی بقا اسی میں ہے کہ وہ عام دھارے کے میڈیا کی پابندیوں اور رہنما اصولوں کی اندھی تقلید کے بجائے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے لیے نئی گائیڈلائن تخلیق کرے۔(بشکریہ دنیا)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں