تحریر…سید مجتبیٰ رضوان
سوشل میڈیا پر موجود ہر چیز بھروسے کے لائق اور قابل ِ عمل نہیں کیونکہ شر پسند عناصر اور شیطان فطرت لوگ ہر جگہ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں جن کا مقصد تعمیر و ترقی نہیں بلکہ فتنہ انگیزی، تفرقہ بازی اور معاشرے میں عدم استحکام کو پھیلانا ہے۔ اس لیے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بلا تحقیق کسی بھی بات پر نہ تو بھروسا کیا جائے اور نہ ہی اسکی تشہیر کی جائے۔ سوشل میڈیا جھوٹی خبریں پھیلانے کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اکثر بہت سی باتیں کسی تحقیق کے بغیر اس میں ڈال دی جاتی ہیں ؛ کیوںکہ اس پر حکومت یا کسی ذمہ دار ادارہ کی گرفت نہیں ہے ،جب کہ اسلام نے ہمیں جھوٹ تو جھوٹ ؛ ہر سنی ہوئی بات نقل کردینے اور بلا تحقیق کسی بات کو آگے بڑھانے سے بھی منع کیا ہے ۔عام جھوٹی خبروں کے علاوہ یہ لوگوں کی غیبت کرنے ، ان کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنے ، یہاں تک کہ لوگوں پر بہتان تراشی اورتہمت اندازی کے لئے بھی وسیلہ بن گیا ہے اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب کسی اچھے آدمی کے بارے میں کوئی بُری بات کہی جائے ، خواہ وہ بات کتنی ہی ناقابل اعتبار ہو تو لوگ اس کا آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں ، جس کی کھلی مثال رسول اللہ اکے زمانہ میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کا واقعہ ہے ، جو خود عہد نبوی میں پیش آیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی منافقین کے اس سازشی پروپیگنڈہ سے متاثر ہوگئے ۔ اس ذریعہ ابلاغ کو نفرت کی آگ لگانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا یعنی سماجی رابطے کے ذرائع نے ہماری زندگیوں کو متاثر کن حد تک بدل کر رکھ دیا ہے۔سوشل میڈیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے نجی زندگی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔‘ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں پر مذہبی انتہا پسندی عروج پر اورسیاسی پولرائزیشن نقطہ انتہا کو چھو رہی ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اختلافات پر مبنی مواد ایک دوسرے کو ارسال کرتے رہتے ہیں.سوشل میڈیا دو مختلف میڈیم پر مشتمل فلیٹ فارم ہے.اس کا ایک حصہ پرسنل اوردوسرا پبلک ہے.اول ذکر میڈیم ذاتی پیغام رسانی کے لیے ہوتا ہے جبکہ موُخرالذکر میڈیم پر کوئی بھی اپنی رائےکا اظہار کر سکتا ہےاور کوئی بھی اس رائےکے ساتھ اتفاق یا اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے۔اس کی مثال فیس بک اور میسنجر ہے. فیس بک پبلک اور میسنجر پرسنل میڈیم ہے. جیسا کہ واٹس گروپ پبلک اور واٹس اپ نمبر پرسنل میڈیم ہے.کسی کےموبائل فون، واٹس اپ یا میسنجر پر اس قسم کا ڈیٹا ارسال کرنے سے گریز کریں بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ پبلک پوسٹ شئیر کرتے ہوئے مہذب ہونے کا ثبوت دیا جائے ۔سوشل میڈیا جیسے ہی ہماری زندگی میں وارد ہوا اور سماجی رابطوں کی کئی ایپس نے گھروں میں ڈیرے ڈالے تو گویا وقت کی رفتار کو پر لگ گئے اور ہماری زندگی ذاتی نہیں رہی۔سوشل میڈیا کے مضمرات پر ماہرین اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کو عوامی بھلائی کا بہتر ذریعہ سمجھا جانا چاہیے۔اس سے قبل پاکستان کی وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز مواد اور معاشرے میں انتشار اور اشتعال پھیلانے والی جعلی خبروں اور اطلاعات کا راستہ روکنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مزید بااختیار بنانے کا فیصلہ کیا۔وفاقی کابینہ نے ادارے کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایف آئی اے ایکٹ میں مزید ترامیم کی منظوری دی۔آن لائن ہارم ٹو پرسن رولز کا نیا نام ریمول اینڈ بلاکنگ ان لا فل آن لائن کنٹینٹ رکھ دیا گیا ہے۔نئے مسودہ قوانین کے تحت اسلام، دفاع پاکستان اور پبلک آرڈر کے بارے میں غلط معلومات، اخلاق باختہ اور فحش مواد پر پابندی عائد ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کمپنیاں بھی پاکستان کے وقار،سلامتی ودفاع کے خلاف مواد ختم کرنے کی پابند ہوں گی۔مذہب، توہین رسالت اور حکومتی احکامات کے مخالف مواد پر پابندی ہوگی، سوشل میڈیا کمپنیاں یا سروس پروائیڈرز کمیونٹی گائیڈ لائنز تشکیل دیں گے۔مسودہ قوانین کے تحت پانچ لاکھ سے زائد صارفین والی سوشل میڈیا کمپنیوں کی پی ٹی اے میں رجسٹریشن کرانی لازمی ہو گی اور قوانین کے نفاذ کے بعد سوشل میڈیا کمپنیاں 9 ماہ میں پاکستان میں دفاتر قائم کرنے کی پابند ہوں گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں رولز لاگو ہونے کے تین ماہ کے اندر کوارڈی نیشن کی خاطر فوکل پرسن مقرر کریں گی، سوشل میڈیا کمپنیاں 18 ماہ میں ڈیٹا بیس سرور قائم کریں گی اور سوشل میڈیا کمپنیاں فورمز پر گریوینس آفیسر مقرر کرکے رابطہ معلومات دیں گی۔ مسودہ قوانین کے تحت سوشل میڈیا فورمز اور سروس پروائیڈرز لائیو اسٹریمنگ اور آن لائن میکنزم تشکیل دیں گی۔(بشکریہ جنگ)