bohot saray social media influencers jhoot dikha rhe

سوشل میڈیا اور الیکشن کمپین

تحریر: آصف محمود۔۔

پاکستان میں سنہ 2018 کے الیکشن کے بعد انتخابی مہم اور پارٹی کے بیانیے کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنے کے رجحان میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، سوشل میڈیا اب عام آدمی تک رسائی کے لیے ہر سیاسی جماعت کی ضرورت بن چکا ہے۔الیکشن 2024 کی انتخابی مہم کے لیے سیاسی جماعتیں اور امیدوار ماضی کی نسبت سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ کر رہے ہیں اور اس پر بھاری رقوم بھی خرچ کی جا رہی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کے پاس سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلانے کے اخراجات کو چیک کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

انتخابات کے انعقاد میں چند ہفتے رہ گئے ہیں اور سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں مصروف ہیں۔ آج کے سوشل میڈیا دور میں الیکشن مہم کے روایتی طریقوں سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے کو ترجیح دی جا رہی ہے، جدید دور کے ڈیجیٹل ووٹرز کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے سیاسی مہم چلانا انتہائی اہم ہو چکا ہے۔مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام، ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا ونگ بنا رکھے ہیں اور لاکھوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں جبکہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں الیکشن مہم کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ پی ٹی آئی نے تو پہلی بار ورچوئیل جلسہ بھی کیا ہے۔

مرکزی سوشل میڈیا ونگ کے علاوہ مقامی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں نے بھی اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنائی ہیں۔ جو پارٹی قیادت کے بیانات کے کلپ سمیت امیدوار کی سرگرمیوں بارے پوسٹیں اور ویڈیوز فیس بک، انسٹاگرام اور سب سے بڑھ کر وٹس ایپ پر شیئر کرتے ہیں۔سوشل میڈیا ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پر اشتہاری مہم چلانے کے دو طریقہ کار ہیں، پہلا یہ کہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ جیسے فیس بک، ایکس، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر اپنے پیغام، اشتہار کی ویڈیو اور تصاویر بغیر کسی معاوضے کے شیئر کی جائیں جبکہ دوسرا طریقہ کار یہ ہے کہ رقم خرچ کرکے اپنی پوسٹ کی ریچ بڑھائی جائے۔ اپنی پوسٹ کو بوسٹ کروانے کے لیے ریچ اور دورانیہ کے مطابق آپ کو رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ پوسٹ کو بوسٹ کروانے کی فیس پانچ ڈالر روزانہ سے لے کر ہزاروں ڈالر تک ہوسکتی ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 87.35 ملین لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا یوزر کی تعداد 71.70 ملین ہے جو پاکستان کی مجموعی آبادی کا 30.1 فیصد ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں 73فیصد مرد جبکہ 27 فیصد خواتین ہیں۔

پی ٹی اے کے مطابق پاکستان سب سے زیادہ انٹرنیٹ 56.3 فیصد فیس بک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 20.48 فیصد وٹس ایپ، 11.76 فیصد سنیپ چیٹ، 5.38 فیصد انسٹاگرام اور 1.76 فیصد ٹوئٹر صارفین کرتے ہیں جبکہ 39 فیصد انٹرنیٹ یوٹیوب یوزر اور 15.71 فیصد ٹک ٹاک پر استعمال ہوتا ہے۔الیکشن کمیشن کے ترجمان ندیم حیدر نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار کسی بھی اشتہاری مہم پر ایک کروڑ روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار سیاسی مہم پر 40 لاکھ روپے تک ذاتی حیثیت سے خرچ کر سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ امیدواروں کو پابند کیا گیا ہے کہ انتخابی مہم کے اخراجات کے لیے نیا بینک اکاؤنٹ کھولیں یا پھر اگر وہ پہلے سے موجود بینک اکاؤنٹ استعمال کرنا چاہیں تو متعلقہ ریٹرنگ افسر کو انتخابی مہم شروع کرنے سے پہلے بینک کی تفصیلات اور بینک اسٹیٹمنٹ جمع کروائیں گے۔ انتخابی تشہیر خواہ وہ اخبارات، ٹی وی پر اشہارات ہوں، پوسٹر پرنٹ کروائیں جائیں یا پھر سوشل میڈیا پر تشہیر کریں اس کے لیے اخراجات کی حد مقرر ہے لیکن اخراجات کے لیے کوئی کیٹیگری نہیں بنائی گئی۔

ندیم حیدر نے یہ بھی بتایا کہ اگر کسی امیدوار کا کوئی سپورٹر اور رشتہ دار اس کی اشتہاری مہم چلاتا ہے تو اس کا ذمہ دار بھی امیدوار ہی ہوگا اور وہ اسے کی طرف سے تصور کی جائے گی، کامیاب امیدوار اخراجات کی تفصیل پولنگ کے 10دن میں جمع کرائے گا۔

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی غیر سرکاری ادارے کے بانی سربراہ اسد بیگ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ٹی وی یا پرنٹ کی اشتہاری مہم کو مانیٹر تو کر سکتا ہے لیکن سوشل میڈیا کو مانیٹر کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی امیدوار سوشل میڈیا سیل بناتا ہے یا پھر بیرونی فنڈنگ سے سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلائی جاتی ہے خاص طور پر کوئی بیرون ملک بیٹھ کر وہاں سے ہی پاکستان میں کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کی انتخابی مہم چلاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے پاس اس کو مانیٹر کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ میں گزشتہ پانچ سال یہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سوشل میڈیا مہم کے لیے لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے لیکن ابھی تک کوئی نطام نہیں بنایا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں اہم عنصر بیرون ملک سے سوشل میڈیا مہم کی فنڈنگ ہے۔ کچھ سوشل میڈیا ٹرینڈز کا جو انہوں نے مشاہدہ کیا ہے تو ایک سیاسی جماعت کے سیاسی مہم باہر سے بھی چلائی جاتی رہی ہے۔

اسد بیگ نے بتایا کہ اس کا ایک اہم مسئلہ نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر اور مواد کا ہے جو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے، اس کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیلف ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اشتہاری مہمات پر پیسے لگانے کی مانیٹرنگ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے وہ چیک کرے کہ کسی بھی ڈیجیٹل مہم کے لیے پیسہ کہاں سے آتا اور کون اسے چلا رہا ہے۔

مسلم لیگ ن نے سوشل میڈیا کے محاذ پر انتخابی مہم چلانے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی ہے، اس بارے مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا کے سربراہ عاطف روف رانا نے متعدد بار رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا تاہم مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات اعظمی زاہد بخاری کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی سرگرمیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ رہا ہے بلکہ یہ ضرورت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر تشہیر کے لیے بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بہت پہلے یہ ڈیزائن بنا لیا تھا اور اسی وجہ سے وہ سوشل میڈیا پر سب سے آگے ہیں۔ ان (پی ٹی آئی) کے زیادہ تر فالور بیرون ملک بیٹھے ہیں جو وہاں بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی جماعت کی تشہیر اور مخالفین کے خلاف پراپیگنڈا کر رہے ہیں حتیٰ کہ ان لوگوں نے ملک اور ملک کے قومی اداروں کے خلاف بھی مہم چلا رکھی ہے۔

اعظمی زاہد بخاری کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کی صورتحال یہ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والی ہے، آپ جتنا پیسہ لگائیں گے اتنے ہی زیادہ ویوز لے سکتے ہیں، اتنے ہی زیادہ پوسٹ ریچ بڑھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے مرکز سے لیکر صوبائی اسمبلی کے حلقے تک ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جبکہ والینٹیرز بھی شامل کیے ہیں۔ لیکن ہماری پالیسی واضع ہے کہ ہم کسی سوشل میڈیا کا درست استعمال کریں گے۔ پوسٹ ریچ اور ویوز بڑھانے کے لیے بوسٹ نہیں لگائے جائیں گے اور اس کام کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کریں گے۔

پی ڈی ایم کے دور حکومت میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ اتحادی حکومت نے میڈیا تشہیر کے لئے 10 ارب روپے خرچ کیے ہیں جن میں سے ایک ارب 23 کروڑ روپے سوشل میڈیا کے لیے تھے تاہم اعظمی بخاری کہتی ہیں کہ ان کی جماعت کے پاس خیرات، زکوٰۃ اور صدقے کے پیسے نہیں ہیں کہ سوشل میڈیا کے لیے اس طرح پیسہ بہایا جائے۔اسی طرح دینی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ متحرک ہے۔ جماعت اسلامی نے کئی برسوں سے ایک مکمل سوشل میڈیا ونگ قائم کر رکھا ہے جہاں درجنوں نوجوان کام کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ترجمان اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات قیصر شریف نے بتایا کہ جماعت اسلامی نے کم و بیش 10 سال قبل سوشل میڈیا ونگ قائم کیا تھا اور آج مرکز، صوبوں سمیت یونین کونسل سطح تک سوشل میڈیا ٹیمیں موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے جماعت کی شوریٰ کی منظوری سے ایس اوپیز طے ہیں جن کے تحت کسی کے خلاف نازیبا اور تضحیک آمیز پوسٹ کی جائیں گی اور نہ ہی ایسے کمنٹس کرنے کی اجازت ہے۔انہوں نے بتایا کہ کم وبیش تین ہزار سے زائد سوشل میڈیا کارکنوں کو ٹریننگ دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا ونگ کے لئے ہرسال باقاعدہ بجٹ رکھا جاتا ہے جو کہ بہت محدود ہے۔ کمپیوٹرز، کیمروں کی خریداری، انٹرنیٹ، پروڈکشن اور ڈرون کے لئے بجٹ مختص ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مرکزی سوشل میڈیا ٹیم میں خواتین سمیت 25 سے زائد افراد شامل ہیں جن میں کیمرہ مین، ڈرون آپریٹر، این ایل ای، اسکرپٹ رائٹر اور دیگر لوگ شامل ہیں۔ الیکشن کے حوالے سے بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل میڈیا کمپین کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں