سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کہتے ہیں کہ۔۔آج کل کے حالات بھی بہت دلچسپ ہیں۔ اخبارات کا تو کچھ حال ہی نہیں رہا ‘ اب تو پڑھیں نہ پڑھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے صحافت کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔روزنامہ دنیا میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔ قوم کے معمار ہوں یا مہربان اُن کیلئے اب اخبارات یا ٹی وی پر ہاتھ رکھنا کوئی پرابلم نہیں‘ یہ تو اب بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا ہے۔ مسئلہ سوشل میڈیا نے بنایا ہوا ہے کیونکہ یہ ہوا کی مانند ہے اور ہوا کو مٹھی میں کیسے بند کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ جس بلا کا نام سوشل میڈیا ہے اُس کی فکر لاحق ہے۔ قانون بھی بنائے گئے ہیں‘ مختلف قسم کی لگامیں بھی تیار کی گئی ہیں۔ بہت کچھ کنٹرول کے دائرے میں آ بھی چکا ہے لیکن ہوا ہے کہ مکمل طور پر ساکت و جامد نہیں ہو سکتی۔ ہوا کی قدرت میں نہیں کہ وہ ساکت ہو جائے۔ اور اس وجہ سے مختلف قسم کے مہربان تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ فلسفہ وہی ہے جو پرانے زمانوں میں تھا کہ خبر رکنے سے حقیقت پر قابو پا لیا جائے گا۔ اور یہی مختلف ادوار میں خام خیالی رہی ہے۔ حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے چاہے اُس کی خبر کہیں چلے یا نہ چلے۔