social media naya sahafati platform

سوشل میڈیا نیا صحافتی پلیٹ فارم۔۔

سوشل میڈیا نیا صحافتی پلیٹ فارم۔۔

تحریر:سید بدر سعید

ایک زمانہ تھا ۔ صحافت اور ادب میں معیار کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ اخبارات کے نیوز روم میں ایک ایک لفظ کے درست تلفظ پر ہفتوں بحث ہوتی اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے اپنے تلفظ کے حق میں باقاعدہ کلاسیک ادب سے مثالیں پیش کی جاتی تھیں ۔ خبر کو رپورٹر کی سطح پر کاونٹر چیک کرنے کے بعد ایڈیٹرز الگ سے چیک کرواتے تھے اور اس کے بعد اس خبر کو شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ۔ نعت خواں ادب اور عشق  کا استعارہ تھے ۔ گانوں کی طرز پر نعت گوئی کا تصور تک نہ تھا ۔ نعت خوانوں پر پیسے نچھاور کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ مشاعروں میں سیٹی بجانا بے ادبی تھی ۔ ہر شعبے کے قاری اور ناظرین الگ مزاج رکھتے تھے ۔ فنون لطیفہ اور فحاشی میں فرق روا رکھا جاتا تھا ۔ بدقسمتی سے وہ سنہرا دور ختم ہوا چاہتا ہے ۔

صحافت اخبار اور ٹی وی سے ہوتی ہوئی ڈیجیٹل میڈیا تک پہنچی تو اس کے قوانین اور اصول ہی مرتب نہیں کیے جا سکے ۔ پیکا ایکٹ کا مقصد کچھ اور ہو گا لیکن کچھ کیسز ایسے درج ہوئے جو انتقامی کاروائی لگنے لگے ۔ شاید پولیس اہلکار بھی ابھی اس ایکٹ  سے مکمل واقف نہیں ہوئے ۔ ایک صحافی نے ایک سیاست دان کے سوشل میڈیا سٹیٹس کو کاپی کیا تو اسے بھی پیکا کا “ٹیکا” لگ گیا ۔ اس سے مجموعی تاثر خراب ہوتا ہے ۔ بطور صحافی ہم سے زیادہ شاید ہی کوئی “فیک نیوز” کا ڈسا ہو ۔ سوشل میڈیائی  “فیک نیوز” نے جس طرح اپنے فرائض سر انجام دینے والے حقیقی صحافیوں کو نقصان پہنچایا  اس کا اندازہ ان سے زیادہ کسے ہو گا جو فرض بھی ادا کرے اور کالی بھیڑوں کے بنائے تاثر کو بھی بھگتے ۔ حقیقی صحافیوں کا ہی یہ مطالبہ ہے کہ فیک نیوز اور فحش کانٹنٹ کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔ یہ مطالبہ بھی کارکن صحافیوں کا ہی ہے کہ سوشل میڈیا پر صحافی اور “ٹک ٹاکر ایکٹرز” میں فرق واضح ہونا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کارکن صحافی ہی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے صحافتی کام میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے ۔ اگر کسی سیاست دان کی کوئی بات رپورٹ کی جائے اور وہ قابل گرفت ہو تو اس سیاست دان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے  نہ کہ اسے رپورٹ کرنے والے صحافی کے گرد شکنجہ کس دیا جائے ورنہ صحافت یکسر ختم ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں جو مافیا اپنی جگہ بنائے گا اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو گا ۔ صحافی نہ تو پولیس ہے کہ کسی کے خلاف مقدمہ درج کرے ، نہ وکیل ہے کہ کسی کی صفائی دے یا اس کے خلاف چارج شیٹ بنائے اور نہ ہی جج ہے کہ کسی کو سزا سنا دے ۔ یہ تینوں کام ریاست کے ہیں ۔ صحافی جو دیکھتا ہے وہی رپورٹ کرتا ہے۔اس کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں بلکہ جو ہوا ہے اسے سامنے لانا ہے ۔ اس رپورٹنگ پراسس کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف مقدمات درج نہیں ہونے چاہیے بلکہ کوئی کاروائی بنتی ہو تو اصل محرک کے خلاف ہونی چاہیے ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی صحافی قتل یا زیادتی کا کوئی واقعہ رپورٹ کر دے اور اس واقعہ کو رپورٹ کرنے پر صحافی کے خلاف اعانت جرم کا کیس بنا دیا جائے ۔ ریاست ایسے اقدامات کرے گی تو صحافت کمزور ہو گی اور ایجنڈا سیٹنگ مضبوط ہو گی ۔ خبر کی جگہ ویوز اور ریٹنگ گیم لے لے گی اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا ۔

اس بار رمضان شوز نے مایوس کیا ۔ ماضی میں فلم اور اسٹیج سے جڑی خواتین کو رمضان شوز کی میزبان بنانے کا تجربہ ہوا تو اس پر سنجیدہ حلقوں نے اعتراض کیا تھا ۔ اس بار ایک نیا تجربہ کیا گیا ۔ رمضان شوز میں مختلف چینلز پر “لائیو فون کالز ” کی آڑ میں ایسے سوالات چلائے جاتے رہے جو رمضان کے تقدس کے خلاف تھے ۔ خواتین کی ایسی کالز نشر کی گئیں جن میں وہ پروگرام میں موجود عالم سے غیر مناسب سوال کرتی رہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہی “لائیو کالز” نے ویوز اور ریٹنگ دی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر بے ہودگی ہی معیار ہے تو پھر ٹک ٹاک پر فحاشی پھیلانے والے ٹک ٹاکرز اور صحافت میں کیا فرق رہ جائے گا؟

اس میں دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا ہی اب صحافت کا نیا پلیٹ فارم ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سوشل میڈیا پر اصل گیم کانٹنٹ کی ہے ۔ چند ماہ قبل ایک تقریب میں یہی بات کہہ تھی کہ سوشل میڈیا پر فحاشی پھیلانے والے ٹک ٹاکرز کے پاس وہی کانٹنٹ ہے جو وہ دکھا رہے ہیں ۔ اسکا مقابلہ ادب اور صحافت نے کرنا ہے ۔ ہمارے پاس اچھا کانٹنٹ ہے تو ہم بھی اس فحاشی کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم اس پلیٹ فارم پر اچھا کانٹنٹ پیش نہیں کر رہے ۔  دانشوروں اور صحافیوں کو پروفیشنل انداز میں ڈیجیٹل میڈیا پر اپنی جگہ سنبھالنی ہو گی ۔ اچھا سوال بذات خود “وائرل کانٹنٹ”  ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر ٹک ٹاکر اچھا سوال کرنا جانتا ہے ؟ جن لوگوں کے پاس سوال کرنے کا ہنر ہے ان کی اکثریت ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر نہیں ہے ۔ رمضان شوز کا کانٹنٹ بہت اچھا ہو سکتا ہے ۔ نعت خوانوں کو ہدیہ ادب سے دیا جا سکتا ہے ۔ مشاعروں میں سیٹی کی جگہ مکرر اور واہ لے سکتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر فحاشی کی جگہ مہذب کانٹنٹ ملینز ویوز لا سکتا ہے اور صحافی پارٹی کی بجائے خبر پر کام کر سکتے ہیں ۔

معاشرے انسانوں سے بنتے ہیں اور انسان ہی انہیں بہتر بناتے ہیں ۔ بدقسمتی سے ٹک ٹاکرز منصوبہ بندی سے فحش ویڈیوز پھیلانے میں مصروف ہیں تاکہ ویوز بڑھا سکیں اور صحافی “پلانٹڈ لائیو کالز ” سے آگے نہیں بڑھ رہے ۔ یہ سب ٹھیک ہونا چاہیے ۔ صحافت کو خبر پر توجہ دینی ہو گی ، دانشوروں کو “کانٹنٹ” اور صحافیوں کو “خبر” پر نظر رکھنی ہو گی ۔ ریاست کو بھی “فیک نیوز” اور “رپورٹ نیوز ” میں فرق روا رکھنا ہو گا ۔ اپنے معاشرے کو تباہ ہونے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے جس کے لیے  تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔ (بشکریہ نئی بات)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں