تحریر: شفایوسفزئی(اینکرپرسن)
حال ہی میں چند خواتین صحافی بدزبانی، گالم گلوچ اور بدکلامی سے متعلق قومی اسمبلی کی حقوق انسانی کی کمیٹی میں ایک درخواست لے کر پہنچیں۔ اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہونے کے باعث یہ ویسے تو ایک انتہائی اہم اور خوش آئند اقدام ہے جس کی ضرورت تھی لیکن اس میں کئی کمزوریاں ہیں جنہں درست کرنا اور باقاعدہ وضاحت کرنا ضروری ہے۔پہلا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خواتین صحافی صرف اپنے تحفظ کی بات کر رہی ہیں جبکہ بدتمیزی، بدزبانی اور بدسلوکی نہ صرف خواتین سہہ رہی ہیں بلکہ مرد صحافی بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صرف صحافیوں ہی کو بدزبانی اور گالی گلوچ کا سامنا نہیں ہے بلکہ معروف عوامی شخصیات، ریاستی اداروں کے لوگ، سرکاری محکموں میں کام کرنے والے، سیاسی جماعتوں کے رہنما اور دینی شخصیات سبھی کسی نہ کسی طرف سے گالی گلوچ، بدزبانی اور بدکلامی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر اس مسئلے کو حل کرنا ہے تو پھر ہمیں گالی گلوچ کے اس کلچر کے خلاف متحد ہونا پڑے گا جو ’نیو میڈیا‘ پلیٹ فارمز پر جاری ہے جنہیں ذومعنی یا سمجھ کی کمی کے باعث سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔
خواتین صحافیوں کے اس اقدام سے یہ تاثر گیا ہے، اور کئی خاتون صحافیوں نے کھل کر اظہار بھی کیا ہے، جیسے صرف حکومت اور ایک ہی سیاسی جماعت کے خلاف یہ سارا معاملہ چلنا تھا اور شاید صرف پاکستان تحریک انصاف گالی گلوچ میں ملوث ہے۔ اس معاملے پر جو کچھ رپورٹ ہو رہا تھا اس سے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے پیچھے معتصبانہ سیاسی ایجنڈا ہے جس میں پیٹیشنرز حکومت کے خلاف درخواست لے کر حزب اختلاف کے ایک رکن بلاول بھٹو کے پاس جا رہی ہیں۔ تاہم ابھی تک اس پیٹیشن کے حوالے سے ترمیم ہوگی یا نہیں اور کیا اس میں دیگر سیاسی جماعتوں کے نام شامل کیے جایئنگے جیسا کہ مہر بخاری، فریحہ ادریس، میرا اور دیگر چند صحافیوں کی خواہش ہے یا نہیں یہ دیکھنا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو بھی شامل کیا جانا ضروری ہے کیونکہ ابھی بھی اس میں دیگر جماعتوں کے نام موجود نہیں ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے نام شامل کرنا اس لیے ضروری ہیں کہ ماضی میں ان جماعتوں کے قائدین اور حمایتیوں کی جانب سے خواتین کے متعلق بہت کچھ کہا گیا ہے۔ مثال کے طور پر2014 میں مولانا فضل الرحمن اور دیگر کئی مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے دھرنے میں شرکت کرنے والی تحریک انصاف کی خواتین کے متعلق انتہائی نازیبا گفتگو کی تھی اور یہ باتیں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر چھپ کر نہیں بلکہ ٹیلی ویژن پر کھلے عام کہی گئی تھیں۔ اس لیے ان جماعتوں کو بھی نظم و ضبط میں لانا ضروری ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف نے شیریں مزاری پر جس قسم کے توہین آمیز، اخلاق سے گرے ہوئے اور مخصوص صنف کے جملے پاکستان کے سب سے اونچے فورم یعنی قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے ٹیلی ویژن کے کیمروں کے سامنے ادا کیے تھے وہ کسی نادان نوجوان کارکن کے الفاظ نہیں تھے جو ٹویٹر پر چھپ کے ٹویٹس کرتا ہے۔ انہوں نے ایک ذمہ دار پارٹی کے ایسے رہنما کی حیثیت سے یہ الفاظ ادا کیے تھے جو پاکستان کا وزیر خارجہ اور وزیر دفاع رہ چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی پارٹی نے انہیں نظم و ضبط سکھانے کے لیے کیا کیا؟ محض ایک جملے میں معافی مانگ لینا تو کافی نہیں ہے۔ کیا ان کی ایک ماہ یا چھ ماہ کے لیے پارٹی رکنیت معطل ہوئی؟ کیا انہیں آئندہ کے لیے خاموش رہنے کا حکم دیا گیا؟
اسی طرح پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کی نازیبا اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں بھی قومی اسمبلی میں ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے ہوتی رہتی ہیں۔ اس حوالے سے بلاول بھٹو نے یا ان کی جماعت نے کیا ایکشن لیا؟جب فیاض الحسن چوہان نے ہندو کمیونٹی کے بارے میں بیان دیا تھا تو اس پر وزیر اعظم عمران خان کے کہنے پر ان سے وزارت واپس لے لی گئی تھی اور کئی ماہ کے بعد وہ واپس آ سکے تھے۔اگر پارٹیوں نے اپنے لوگوں کو بنیادی اقدار پر نظم و ضبط کے دائرے میں لانا ہے تو اس کا تو پھر طریقہ یہی ہے۔ اس تمام معاملے میں غیرجانبداری کا نظر آنا بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم اپنی ذاتی پسند ناپسند سے اوپر اٹھ کر سماجی مسائل کو نہیں دیکھ سکیں گے تب تک اس میں کسی قسم کی کوئی معنی خیز پیش رفت نہیں ہو سکتی۔
اس کے علاوہ درخواست گزار خود یہ مانتے ہیں کہ حکومت کے مرکزی نمائندے خود تو سنبھل کر بولتے ہیں، گالی گلوچ نہیں کرتے لیکن ان کے رویے سے پیروکاروں کو اخلاق سے گری ہوئی یا سخت زبان استعمال کرنے کی شہہ ملتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود تو انتہائی سخت زبان میں رائے کا اظہار کرنا اور بغیر ثبوت کے ہر قسم کے جھوٹے سچے الزامات لگانے کی آزادی چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ اس کے جواب میں یا تو ردعمل نہ دیا جائے یا پھر سخت زبان استعمال نہ کی جائے۔
اس نکتہ نظر میں یہ جھول ہے۔ حکومت یا دیگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف بات کرتے ہوئے حقائق کو ذہن میں رکھنا، زبان کے معاملے میں احتیاط برتنا اور شائستگی سے جواب دینا صرف دوسروں کے لیے ضروری نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا پر موجود تمام افراد پر یہ اصول یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ایک اور اہم مسئلہ بھی اس معاملے سے جڑا ہے۔ درخواست گزاروں کے مطابق وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ حکومت آزادی رائے پر کسی قسم کی قدغن لگائے یا ریگولیشن کو بڑھائے جو کہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم باقیوں کے لیے تو قدغنوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن اسی اصول سے خود کو استثنیٰ دلانے کے خواہش مند ہیں۔
لوگوں کو اس بات کا مکمل ادراک شاید نہیں ہے کہ جسے ہم سوشل میڈیا کہتے ہیں وہ درحقیقت متبادل میڈیا ہے جو پچھلے دس پندرہ سالوں میں بڑھا ہے اور اس کی ساخت ہی یہی ہے کہ اس پر ہر قسم کا شخص اپنی بات کر سکتا ہے۔ یہ ایک قسم کا باہمی مکالمہ ہے جس میں تندی و تیزی بھی ہو جاتی ہے اور نرمی و شائستگی بھی جاری رہتی ہے۔اس کے اعداد و شمار دلچسپ بھی ہیں اور خوفناک بھی۔ دنیا کی آٹھ ارب کے قریب آبادی میں سے دو ارب سے زیادہ لوگ ہر ہفتے فیس بک کو استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان میں تقریبا تین سے چار کروڑ لوگ فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔ ٹویٹر کو دنیا بھر میں تین سے پانچھ سو ملین افراد استعمال کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد تقریبا ایک سے ڈیڑھ کروڑ ہے۔ ٹویٹر پر تمام اہم شخصیات کے اکاؤنٹس موجود ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں انہیں فالو کرتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے ایک کروڑ سے زائد فالورز موجود ہیں، اسی طرح سے بہت سے میڈیا اینکرز کو بھی لوگ فالو کرتے ہیں۔ یو ٹیوب کو بھی تقریبا دو ارب لوگ استعمال کرتے ہیں۔ان سب پلیٹ فارمز پر صرف پاکستانی موجود نہیں ہیں بلکہ اس میں دنیا بھر کے لوگ ہیں اور سخت زبان کا استعمال عالمی سطح پر موجود ہے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ درخواست میں تاثر یہ دیا جا رہا ہے جیسے صرف پاکستانی ہی اس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں جس کا تدارک پاکستان کے اندر ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کے قائدین لکھ کر یہ اعلان کریں کہ وہ کسی بھی گالی گلوچ کرنے والے کو، دھمکیاں دینے والے کو برداشت نہیں کریں گے اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے۔ انہیں یہ بھی کھل کر کہنا چاہیے کہ وہ ایسے افراد کو فالو کرنے کی بجائے انہیں بلاک کریں گے۔ اس حوالے سے مریم نواز کے متعلق یہ شکایت عام ہے کہ وہ خواتین کو گالیاں دینے والوں اور نازیبا زبان استعمال کرنے والوں کو خود فالو کر رہی ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے انہیں ایسے افراد کو بلاک یا ان فالو کرنا چاہیے۔
اسی قسم کا ایک اعلان میڈیا اینکرز، عوامی شخصیات، ایڈیٹرز وغیرہ کی جانب سے بھی آنا چاہیے۔ کیونکہ بہت سے صحافی خود بھی سوشل میڈیا پر اپنے صحافی ساتھیوں کے خلاف الزام تراشی اور نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔ میرے ساتھ تو یہ معاملہ ہو چکا ہے اس لیے میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں کہ مجھے زیادہ تکلیف اپنے ہی ساتھیوں کی طرف سے مذاق اڑائے جانے، الزام لگائے جانے، سخت زبان استعمال کیے جانے سے ہوتی ہے۔
لہذا انہیں اس بات کا خود بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ خود کوئی ایسی بات تو نہیں کرتے جو نامناسب یا ہتک آمیز ہو اور جس میں دوسرے صحافیوں، سیاست دانوں، اداروں اور سرکاری ملازمین کے متعلق نامناسب انداز اپنایا جا رہا ہو اور عام شہری کے جذبات مجروح ہوں۔میری نظر میں اتفاق رائے سے اس معاملے کو حل کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اور صحافی ہوں یا سیاست دان دونوں کو اس مقصد کو مل کر آگے لے کر چلنا چاہیے۔(بشکریہ انڈی پینڈنٹ)