تحریر: ایس اے زاہد۔۔
اِس وقت پاکستان مخالف قوتیں پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں اور ہر طرح سے پاکستان مخالف کارروائیوں میں مصروف ہیں جن میں ہائبرڈ وار بھی شامل ہے۔ علاقائی اور دیگر سطحوں پر دوبارہ صف بندی کی وجہ سے پاکستان کو ہائبرڈ وار کے خطرناک حملے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اِس طرح کے حملوں اور یلغار کے خلاف اپنے دفاع کا انتظام کرے تاکہ ملک اور معاشرے کو اپنی روایات برقرار رکھنے اور نقصان سے بچانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
اِس مقصد کے لئے متعلقہ قومی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی گئی جس کے بعد چیئرمین پی ٹی اے کے تحت وزیراعظم کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی کے ذریعے سوشل میڈیا کے قواعد پر نظرثانی کی گئی جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا کے لئے قواعد تیار کئے گئے۔ وفاقی کابینہ نے 6اکتوبر 2020کو اِن قواعد و ضوابط کی منظوری دی۔
مختلف حلقوں کے ذریعے سے ایک منظم سازش کے تحت معاشرے میں انتشار و افراتفری اور نفرت پھیلانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے اور ثقافتی و مذہبی اصولوں کو جھوٹ کے ذریعے نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ پاکستان کے اہم ترین اداروں اور شخصیات کے بارے میںمنفی رجحان پیدا کرنے اور ہماری روایات کو پامال کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے حکومتی سطح پر ایسی ملک مخالف سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے نئے قواعد و ضوابط بنائے گئے، تاکہ عوام کو اِس سازش کے منفی آن لائن اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
اِن اثرات میں توہینِ رسالتؐ، ریاست کو بدنام کرنا، اداروں اور تقرریوں کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلانا، فرقہ وارانہ اور نسلی منافرت و ہراساں کرنا، الغرض پاکستان کو جھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعے ہر طرح کا نقصان پہنچانا اور افراتفری کا شکار بنانا شامل ہیں۔ حکومت نے اِس قسم کے جھوٹے اور منفی پروپیگنڈہ کی روک تھام کے لئے بہتر انتظام کر لیا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے متعلق ان حکومتی مثبت اقدامات اور فیصلے کے بارے میں بعض حلقوں، بعض این جی اوز اور کچھ لوگوں کی طرف سے تھوڑا بہت ردعمل بھی سامنے آیا ہےجس کا مقصد اِن نئے قوانین کے بارے میں تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کرناہے۔
دنیا کی ہر ریاست اپنے نظریات کو محفوظ رکھنے کیلئے قوانین نافذ کرتی ہے۔جو قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مطابق ہوتےہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا سے متعلق نئے قوانین کے نفاذ کا مقصد بھی یہی ہے۔ یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کا تخمینہ پانچ اعشاریہ پانچ بلین امریکی ڈالر تک بڑھایا گیا ہے۔ جو بعض حلقوں میں سالانہ 100فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ نئے قوانین سے ای کامرس کسی طرح نہ متاثر ہوتی ہے نہ ہو رہی ہے۔
مقامی این جی اوز کو اصل میں یہ خدشہ ہے کہ عالمی ٹیک کمپنیاں پاکستان میں اِن قوانین کی وجہ سے اپنی سرگرمیاں بند کرنے پر مجبور ہو سکتی ہیں۔ تاہم یہ ٹیک کمپنیاں پاکستان میں جس بڑے پیمانے پر کاروبار کرتی ہیں۔ اِن سے کبھی بھی ان قوانین کے لئے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ اِن قوانین سے اِن کی آمدنی متاثر ہی نہیں ہوتی۔ یہ کسی بھی ریاست کا فرض ہے کہ جعلی، جھوٹی، غیراخلاقی، مذہب مخالف خبروں اور افواہوں، خطوط اور تجزیوں کو ختم کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے اور افراتفری سے پاک معاشرے کو یقینی بنائے اور نافذ کردہ قواعد کے ذریعے حکومت پاکستان اپنی اس قومی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ غیر قانونی آن لائن مواد کی روک تھام 2020کا قانون کسی فردِ واحد یا بعض لوگوں کی مرضی سے تیار نہیں کیا گیا بلکہ اِس بارے میں ٹیک کمپنیوں، آئی ایس پیز اور متعلقہ افراد کے علاوہ قانونی برادری اور عام لوگوں سے مشاورت کی گئی تھی اور یہ قانون آئین کے آرٹیکل 19کے متعلقہ پیراگراف کے مطابق تشکیل دیا گیا۔
تقریباً ہر پاکستانی جانتا ہے کہ پاکستان کے بارے میں سوشل میڈیا کو کس طرح غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ایک منظم سازش کےتحت سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری معاشرتی اور قومی روایات کو تباہ کرنے کی کوششیں کی جا رہیہے ۔فرقہ واریت کو ہوا دینے اور نفرتیں پھیلانے کی ناپاک کوششیں ہو رہی ہیں۔ اہم اداروں اور شخصیات کے بارے میںلغو اور جھوٹی خبریں اور باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔اس لئے اب ہر ممکن طریقےسے سوشل میڈیا کو لگام ڈالنا ضروری ہو چکاہے۔ (بشکریہ جنگ)