social media ko khamosh karwaden

بس! سوشل میڈیا کو خاموش کروا دیں!

تحریر: علی احمد ڈھلوں

کیا آپ کو علم ہے کہ اس سال بھی گزشتہ کئی دہائیوں کی طرح تعلیم کے حوالے سے کوئی نیا منصوبہ نہیں بنااور بجٹ میں تعلیم کا بجٹ محض 1.2فیصد رکھا گیا ہے، جو تنخواہوں ، منصوبہ بندی اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے،،، جبکہ صحت کا بھی یہی عالم ہے کہ ہم عوامی صحت کے حوالے سے دنیا بھر میں دو درجے رینکنگ میں کمی کے بعد مزید آخری نمبروں پر چلے گئے ہیں۔ اور تو اور ہم عدلیہ میں بھی دنیا میں 144ویں نمبر پر ہیں اور کرپشن میں بھی یعنی ایماندار ممالک کی فہرست میں ہم 140ویں نمبر پر ہیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ سرکاری دفاتر چلانے کے حوالے سے ہمارا نمبر آخری سے بھی نیچے چلا گیا ہے، یعنی دنیا ہمیں اس حوالے سے کسی رینکنگ میں لے ہی نہیں رہی…. سونے پر سہاگہ یہ کہ جب ہم سے یہ سب ہو ہی نہیں رہا اور ہم اپنے آپ کو بدلنے کے قابل ہی نہیں رہے تو پھر ہم نے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کے سوچ لیا۔ یعنی ہم اب اربوں روپے کا ”فائر وال سسٹم“ چین سے خرید رہے ہیں۔ جس سے سوشل میڈیا صارفین کو آسانی سے پکڑا بھی جائے گا اور اُنہیں سزائیں بھی دی جائیں گی۔ آگے چلنے سے پہلے میں قارئین کو اس سسٹم کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لیے حکومت قومی سطح پر ایک فائر وال نصب کرنے جا رہی ہے جس کے ذریعے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے فیس بک، ایکس(سابق ٹوئٹر)، یو ٹیوب اور دیگر سائٹس کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔اس فائر وال کی مدد سے ”ریاست مخالف پروپیگنڈا“ کرنے والے اکاو¿نٹس کے انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریسز فوری طور پر حکومت کو دست یاب ہوں گے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔یہ فائر وال سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی طرز پر کام کرے گا جہاں ریاست کسی بھی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرتی ہے۔

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ فائر وال کا یہ نظام چین سے لیا گیا ہے۔ اس کے لیے کتنی ادائیگی کی گئی ہے اور یہ کس طرح کام کرے گا؟ اس بارے میں فی الحال معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔لیکن سنا ہے کہ یہ اربوں روپے مالیت کا سسٹم ہے۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ ایک الگ بحث ہے مگر اتنا بتاتا چلوں کہ حال ہی میں پاک فوج کی طرف سے سوشل میڈیا پر انتشاری مواد کو”ڈیجیٹل دہشت گردی“ کہا گیا تھا۔اب اگر یہ نظام قائم کر دیا گیا تو پھر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوں گی، پکڑ دھکڑ ہوگی، اور ہو سکتا ہے خاکم بدہن عجیب سا دہشت زدہ ماحول بھی بن جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کا تعین کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کی حدود کیا ہیں؟ کیا وہ اپنے سامنے ہونے والی بدعنوانیوں کو دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہیں۔ جیسے گزشتہ ماہ میں کابینہ نے منظوری دی کہ اہم تعیناتیوں میں 65سال کی حد ختم سمجھی جائے،، یعنی من پسند افراد کو نوازنے کے لیے آپ اگر ایسے قوانین پاس کرتے ہیں تو کیا سوشل میڈیا خاموش رہے؟

پھر جو کچھ آپ نے گندم کے ساتھ کیا ہے،جو کچھ چینی کے ساتھ ہو رہا ہے، جو کچھ آپ نے کسان کے ساتھ کر دیا ہے، پھر جو کچھ آپ نے کرکٹ کے ساتھ کر دیا ہے، ایک ایسا بندہ جس کا کرکٹ کے حوالے سے بیک گراﺅنڈ بھی نہیں ہے ، اُسے پی سی بی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے، ،، ایک کرنٹ کھلاڑی سے کرکٹ چھڑوا کر اُسے چیف سلیکٹر بنا دیا گیا ، توقع لگا لی کہ جناب ہم ورلڈ کپ جیت کر آئیں گے،،، الغرض یہ سب کچھ کرنے کے بعد کیا سوشل میڈیا خاموش رہے؟ آپ بندے کو گرفتارکریں، اُسے لاپتہ قرار دے دیں، اور پھر اُس کا کہیں سراغ بھی نہ چھوڑیں ،،، لیکن سوشل میڈیا نہ بولے۔ آپ تعلیم کا بیڑہ غرق کردیں، آپ صحت کارڈ ختم کردیں،،، مگر سوشل میڈیا نہ بولے۔آپ واپڈا کا چیئرمین ایسے شخص کو لگا دیں جس کے واپڈا کی الف ب کا بھی علم نہیں اور پابندی لگا رہے ہیں کہ اس پر کوئی بات بھی نہ کرے۔ کشمیریوں نے ڈنڈے کے زور پر اپنے مطالبات منوائے ہیں،،، لیکن سوشل میڈیا پر خبر نہیں چلنی چاہیے…. پورا سندھ ڈاکوﺅں کے حوالے کر دیا گیا ہے، ،، لیکن سوشل میڈیا پر کو چپ کروا دو ،،، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہو نے لگا ہے، لیکن اس کی خبر سوشل میڈیا پر نہیں چلنی چاہیے۔ اگر ملک کے پیسے کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے،،، سر عام کرپشن ہو رہی ہے،،،، تو کیا عوام تنقید بھی نہ کرے؟ چیف جسٹس چھاپہ مار کر شراب کی بوتلیں پکڑے،،، لیکن وہ صبح تک شہد کی بوتلیں بن جائے،،، تو سوشل میڈیا خاموش رہے۔ آپ دبئی لیکس کو دیکھ لیں،کرپٹ بیوروکریسی، سیاستدانوں اور دیگر کے نام جائیدادیں سامنے آئیں،،، الیکٹرانک میڈیا پر کہیں کوئی ذکر نہیں ہے، مگر سوشل میڈیا کو بھی چپ کروا دیا گیا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں بچیوں کی ویڈیوز بننا شروع ہو جائیں اور پروفیسرز حضرات ملوث پائے جائیں مگر سوشل میڈیا خاموش رہنا چاہیے۔ اقلیتوں کے ساتھ ظلم ہو مگر سوشل میڈیا خاموش رہے، سندھ میں ہاریوں کے ساتھ ظلم ہو، مگر سوشل میڈیا خاموش رہے۔ سندھ میں وڈیرے جانوروں کی ٹانگیں تک کاٹنے لگیں، مگر سوشل میڈیا خاموش رہے؟خود سابق نگران وزیر اعظم کہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے،،، لیکن سوشل میڈیا خاموش رہے۔

اگر آپ کے کرتوت یہ ہیں تو سوشل میڈیا شور نہ ڈالے تو اور کیا کرے؟ہاں! سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہیے،،جہاں غلط خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، پاک فوج کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں،،، وہاں کنٹرول کریں۔ جہاں کہیں ذاتی زندگی کے حوالے سے افیئرز کا مسئلہ ہو، یقینا وہاں پر سوشل میڈیا پر پابندی ہونی چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہاں ایک اور بھی ہے کہ جب سوشل میڈیا پر آپ کے اپنے وزیر پاک فوج کے خلاف بات کرتے ہیں، یا دوسری لغویات کہتے ہیں تو پھر یہ قوانین کیا لاگو نہیں ہوتے؟دراصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بس ہمیں آزادی ملنی چاہیے، باقی سب پر پابندی لگا دو ، ہم جو مرضی کریں۔ چلیں ہم سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ سوشل میڈیا صارفین کی حدود کیا ہیں؟ کیا اُنہیں کوئی مناسب گائیڈ لائن دی گئی ہیں ؟ یا اُنہیں آسان الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ وہ کیا کریں؟ اور کیا نہ کریں۔

یعنی اس ملک کے کوئی معیارات بھی ہیں؟ جس طرح پرنٹ میڈیا نے اپنے معیارات سیٹ کیے ہوئے ہیں،،، کہ وہ98فیصدخبریں بغیر ثبوت کے کسی کے خلاف خبر شائع نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح کیا حکومت نے بھی اپنے سٹینڈرڈ سیٹ کیے ہوئے ہیں؟ کیا حکومت نے بھی خود احتسابی کی ہے کہ وہ اپنے عوام سے جینے کے بنیادی حق بھی چھین رہا ہے۔ جب آپ خود کسی کو ذاتی حیثیت میں اسلام آباد سے اُٹھا کر کشمیر میں مقدمہ درج کر دیں گے،،، تو پھر کیا کوئی سوشل میڈیا پر ایسے مسائل اُٹھانے سے باز رہ سکتا ہے۔ الغرض حدود متعین کردیں، ایک کمیشن بٹھا دیں، جو سفارشات مرتب کرے کہ یہ حدود ہیں ان سے باہر نہیں جانا۔

لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ ہے کہ پھر آپ اپنی بنائی ہوئی حدود کے خلاف خود کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ نہیں ایسا نہیں ایسا ہے۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ ان کمیشنز کا آج تک فائدہ بھی تو کوئی نہیں ہوا۔ آپ مخالف جج کا بنایا ہوا کمیشن چھوڑیں فیض آباد دھرنا کیس کی رپورٹ پڑھ لیں،،، خود سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اور پھر خود ہی کہہ دیں گے کہ ہمیں اپنے ہی بنائے ہوئے کمیشن کی رپورٹ پر اعتراض ہے۔ پھر ان کمیشن کی رپورٹ اگر ٹھیک آ ہی جائے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ رپورٹ پڑھنا یا دکھانا غداری کے مترادف ہے …. آپ ماڈل ٹاﺅن کمیشن رپورٹ کو ہی دیکھ لیں،،، آپ حمو د الرحمن کمیشن کی رپورٹ ہی کو دیکھ لیں۔

مطلب درست رپورٹس ہمارے لیے ہولو کاسٹ بن جاتی ہیں،، جن پر بات نہیں کی جا سکتی۔ کیا اس پر بھی کبھی کوئی کمیشن بنا ہے کہ ہم ہر چوتھے دن انٹرنیشنل میڈیا پر خوار ہو رہے ہوتے ہیں،،، حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

بہرکیف سوشل میڈیا پر پابندی ضرور لگائیں لیکن اپنے آپ پر بھی غور کریں کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ ضرور چینی اور سعودی طرز کا انٹرنیٹ فائر وال سسٹم خریدیں مگر یہ بھی دیکھیں کہ اُن معاشروں اور ہمارے معاشرے میں بہت فرق ہے۔ یہ دونوں ممالک معاشی طور پر خود مختار ہیں اور اپنے عوام کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں نہ تو معاشی خود مختاری ہے اور نہ ہی عوام اس طرح کے کنٹرول کو قبول کریں گے۔ لہٰذایہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔اور پھر ان چیزوں سے بچنے کے لیے کئی وی پی این ٹائپ سافٹ وئیر موجود ہیں،،، اُن کا کیا کریں گے؟ اس سے مزید سراسیمگی پھیلے گی۔ جس کی موجودہ حکومت کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتی! اس لیے سوشل میڈیا صارفین کے دل کارکردگی سے جیتیں ۔ پابندیوں سے نہیں!(علی احمد ڈھلوں)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں