سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ میری اپنے اینکرز اور صحافی دوستوں سے بات ہو رہی تھی کہ آپ میں سے کتنے لوگ فیک نیوز اپنے ٹی وی شوز یا سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں جو آپ کو اس بل سے خطرہ ہے؟ بقول وزیر اطلاعات عطا تارڑ صاحب سوشل میڈیا پر سارا گند سیاسی جماعتیں ڈالتی ہیں اور ان کا دفاع اینکرز اور صحافی کرتے ہیں۔دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔ سب اینکرز سمجھدار ہیں‘ سب پروفیشنل ہیں‘ میں سب کو جانتا ہوں‘ نہ کوئی فیک نیوز دیتا ہے‘ نہ سوشل میڈیا پر گالیاں دیتا ہے‘ نہ فیک یا فوٹو شاپ تصاویر بناتا ہے‘ نہ مصنوعی ذہانت سے بنی گندی وڈیوز اپنے پروگرام میں چلاتا ہے‘ نہ ہم ان لوگوں کا دفاع کررہے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کو گٹر بنا رکھا ہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کا گند ہے‘ اینکرز یا صحافیوں کا پھیلایا ہوا نہیں ہے۔ ہر اینکر یا صحافی نے سوشل میڈیا پر گالیاں کھائی ہیں اور جن سے کھائی ہیں ان کو بچانے کے لیے اب اینکرز ہی میدان میں نکلے ہوئے ہیں۔ کتنے اینکرز پر اب تک مقدمے ہوئے ہیں کیونکہ پیکا ایکٹ تو 2016ء سے چل رہا ہے؟ سب تربیت یافتہ اور سمجھدار ہیں اور انہیں علم ہے کہ سوشل میڈیا کا کیسے استعمال کرنا ہے۔ بہتر ہے ہم سوشل میڈیا کا گند اپنے گلے میں نہ ڈالیں۔ میں نے تو کسی مین سٹریم میڈیا کے اینکر کو سوشل میڈیا پر فیک نیوز یا گندی پوسٹ یا فیک وڈیو لگاتے نہیں دیکھا۔ پھر ہمیں یہ پریشانی کیوں؟ ویسے کیا ہم سب کو سوشل میڈیا پر احتیاط کی ضرورت نہیں کہ جو بات کہیں ذمہ داری سے کہیں یا لکھیں؟ یا جو ہمارے دل میں آئے لکھ دیں‘ بول دیں‘ فیک نیوز پھیلا دیں اور جعلی ویڈوز یا تصاویر چھاپ دیں؟ اور کوئی پوچھ لے تو ہم آزادیٔ رائے کا شور مچا دیں۔ اسلام آباد میں ہم تین سو بندے مارے جانے کی فیک خبر چلا دیں تو بھی کوئی کچھ نہ کہے۔ سب جھوٹ مان لیں کہ واقعی تین سو بندہ مارا گیا۔ کیا ہم ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں بقول زرتاج گل سب کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں اور سب چسکے لیتے ہیں اور اسے آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ رائے سمجھتے ہیں؟