تحریر: عاصمہ شیرازی( اینکرپرسن)۔۔
بدلتے حالات نے کئی ذہنوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کہیں جمہوریت، آزادی رائے، انسانی حقوق وغیرہ کی اصطلاحات گزرے دنوں کی داستان تو نہیں بن گئیں؟ہر چیز حد میں اچھی لگتی ہے لیکن کبھی سُنا نہ تھا کہ خاموشی بھی حدود میں قید ہو جائے، خاموشی کو خاموش رہنے کی اجازت بھی نہ دی جائے؟ عجیب بات ہے خاموشی کا گلا بھی گھونٹ دیا جائے اور خاموشی زندہ بھی رہے۔ اس کی ایک مثال یہ معاشرہ ہے جس کے باسی ہم ہیں۔
سکرینیں روشن ہیں مگر دماغ ماؤف، اخبارات اور جرائد کی تعداد سینکڑوں میں مگر حقائق محدود، آئین پاکستان آزادی رائے کا ضامن مگر رائے کی آزادی کس کس کو، فیصلہ محفوظ۔۔۔ سچ کہنے کی اجازت مگر مشروط، تجزیے اور تبصرے اشاروں کے محتاج، لفظ مستعار اور حرف بے آبرو۔۔۔جون 2019 میں ایک وفاقی وزیر کے بیان کہ ملک میں صرف پانچ ہزار لوگوں کو چوک چوراہوں میں گھسیٹ کر لٹکا دیا جائے تو ملک بہتر ہو جائے گا۔۔۔ محض ہوا میں مکا لہرانے کے مترادف لگا۔ اسی طرح کی گفت گو اعلی عہدیداروں کی زبانی سُنی تو ہنسی میں اُڑا دی کہ کیسے ممکن ہے کہ ایسا ہو؟جیتے جاگتے ملک میں جمہوریت کی جنگ لڑنے والوں کو کیسے روندا جا سکتا ہے؟ نہیں معلوم یہ پانچ ہزار کی تعداد کہاں سے آئی، کس نے بتائی اور کیسے اگلوائی۔۔۔ تاہم اب یہ ایک سچ لگتا ہے۔ چوک چوراہوں میں لٹکایا تو نہیں گیا ہاں مگر جمہوریت پسندوں کو سر عام کبھی گالی کبھی گولی اور کبھی غداری کا سامنا ضرور کرنا پڑ رہا ہے۔
قومی میڈیا بے چارگی کا شکار جبکہ سوشل میڈیا کی لگامیں کسنے کی تیاریاں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میڈیا اتھارٹی کے قیام کی بات کی گئی، ردعمل کے بعد محض تجویز تک محدود کر دیا گیا اور اب ایک بار پھر میڈیا اتھارٹی پر دلائل شروع ہیں۔
ٹریبونلز کے قیام اور صحافیوں کو ٹریبیونلز کے ذریعے کنٹرول کرنے کی باقاعدہ تجویز، صحافیوں کو شکایت کی صورت مجوزہ اتھارٹی سزائیں دے سکے گی، ٹریبونل میں صحافی بھی ہوں گے مگر مقرر انھیں صدر مملکت حکومت کی سفارش پر کریں گے۔کوئی صحافی نظریہ پاکستان، پاکستان کی خودمختاری، سالمیت یا سیکورٹی سے متعلق کسی ’پروپیگنڈے‘ یا عمل کی تشہیر نہیں کرے گا۔ اتھارٹی بتائے گی کہ کس نے نظریہ پاکستان یا سلامتی کے اداروں وغیرہ کے خلاف بولا۔ان تمام کو موضوع بنا کر اس سے پہلے بھی کئی بار صحافیوں کو قانونی کارروائیوں کا جواز بنایا جا چکا ہے، پہلے ہی کئی ایک صحافی پیپرا قوانین کے تحت ایف آئی اے میں جوابدہ ہیں جبکہ حال ہی میں سندھ حکومت کے چند وزرا اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو ایک ویڈیو فارورڈ کرنے کے الزام میں طلب کر لیا گیا ہے۔آزادی محدود اور حد بڑھتی جا رہی ہے۔ تعزیر اور سزا کے معنی بدل گئے ہیں، طاقت اپنے پورے اختیار کے ساتھ کار فرما ہے۔
اب سچ کہنے اور سوچ کی آزادی کی جنگ فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ چند سر پھرے ہیں جنھیں قابو کرنے کی کوششیں آخری مرحلے میں ہیں۔چند زباں دراز‘ غداری کے مقدموں اور تمغوں کو سمیٹے ہوئے خودداری کی جدوجہد میں ادنی سپاہی کی مانند ہیں جو فکر کے محاذ پر ایستادہ اپنی فطرت کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں ورنہ کیا بُرا ہے کہ طاقت وروں کے حلقہ اثر میں شامل ہو جائیں اور معصوم ٹہریں۔امتحان سچ کی دہلیز پر دیا جلانا ہی تو ہے سو جلائیں گے۔ طاقت وروں کی خواہش تو لامحدود ہے کہ سُنجھیاں ہو جاں گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔
اس حصار سے کون نکلے گا؟ لڑائی لڑی جا سکتی ہے مگر خوف کے ماحول میں خود سے خوف زدہ لوگوں کو لڑنے پر مجبور کیسے کیا جائے؟ باہر کی پابندیوں کو توڑا جا سکتا ہے اندر کے محاصرے کو کیسے توڑا جائے؟باہر کی سکرینوں کے کالے ہونے کا ڈر نہیں مگر ذہن کی کالی سکرینوں کا کیا ہو؟ اپنی آواز کا خوف ختم کرنے کے لیے بولنا لازم مگر اپنے اندر کی خاموشی کون توڑے گا؟ شش، خاموش۔۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔