اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا کے نئے متعارف کردہ قوانین کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے کہ آیا مذکورہ قانون سازی آئین اور آزادی اظہار کی خلاف ورزی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اگرچہ نئے رولز کا باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن کر دیا گیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ یہ آئین کے خلاف تو نہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے سوشل میڈیا اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی تفصیلات بتاتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے ڈاکٹر شیریں مزاری، ملیکہ بخاری اور دیگر پر مشتمل مشاورتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے 30 اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ 19 میٹنگیں کیں جن میں بین الاقوامی سوشل میڈیا کمپنیاں فیس بک، گوگل اور ٹویٹر شامل ہیں۔تاہم چیف جسٹس نے مقبول سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر پابندی لگانے اور اسے ختم کرنے پر پی ٹی اے کے وکیل کے خلاف برہمی کا اظہار کیا ہے۔ “یہ عدالت اس بات سے مطمئن نہیں تھی کہ ٹک ٹاک پر پابندی کیوں لگائی گئی تھی،” انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا۔۔ “دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، اور پابندی لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ حکام الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پی ای سی اے) ایکٹ کے تحت اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ جہاں یہ لکھا ہے کہ اتھارٹی کو اخلاقی پولیسنگ کا مظاہرہ کرنا چاہیے، عدالت نے مزید سوال کیا کہ کس ملک کے پورے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ’’قابل اعتراض مواد‘‘ کی آڑ میں نیچے ڈالنے پر مجبور کیا گیا۔ عدالت نے بین الاقوامی معیار کے مطابق سوشل میڈیا ریگولیشنز کا جائزہ لینے کے لیے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صدف بیگ، نگہت داد، فریحہ عزیز، رفیع بلوچ اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یوجے) اور اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی)کے نمائندوں کو بطور معاون مقرر کیا۔ عدالت نے متعلقہ فریقین سے ایک ماہ میں رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔
