تحریر: رضوان طاہر مبین
متوازن صحافت تو پہلے ہی بہت سی مشکلات کا شکار تھی اور اب حقائق سے آگاہی اور سچ تک رسائی سوشل میڈیا کے ’بامعاوضہ ڈھنڈورچیوں‘ کے بوجھ تلے دفن ہو نے لگی ہے!جی ہاں۔۔۔! صحافت جو حق کی تلاش، سچ کی کھوج کے سبب ایک مقدس پیشہ قرار دی جاتی تھی، اب بہت تیزی سے پروپیگنڈے سے گزر کر اپنے جامے سے نکل کر بہت دور جا پڑی ہے۔ اتنے دور کہ اب مڑ کر دیکھتی ہے تو ’سوشل میڈیا انفولینسر‘ اور ’ڈیجیٹل میڈیا کریئٹر‘ کے چَھپر تلے ’طے شدہ‘ اور علی الاعلان ’بیچے گئے مواد‘ کے شور کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ابھی کل ہی کی سی تو بات ہے کہ ہمارے اساتذہ کرام اوراہل دل حقائق کی تلاش اور خبروں کی نشر و اشاعت کے پیچ وخم میں مالکان کے مفاد، منافع خورورں کے روکڑے اور مشتہرین کی سازشیں ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ ہمارے ہاں کی بھی صحافت ’صحافیوں‘ کے ہاتھ سے نکل کر تاجروں کے ہاتھ میں آنے لگی تھی، پھر اس پر روپیا لگایا جانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی باقاعدہ خریدوفروخت اپنے جوبن پر پہنچ گئی۔ ابھی یہ ’چیڑ پھاڑ‘ ہو ہی رہی تھی کہ اس کے بازو میں جو ’انٹرنیٹ‘ کا ایک پھوڑا نکل آیا تھا اب ’سوشل میڈیا‘ کا گویا ایک پورا ’ناسور‘ بن کر یہ بھی اپنا ’زہر‘ پھیلانے لگا۔اور گلی کے نکڑ کے کرداروں سے ہماری ’مٹھی بھر شیشے‘ میں تھرکتے ہوئے اِن ’ڈیجیٹل ڈھنڈورچیوں‘ تک کے سفر میں معروضیت، سچائی، توازن، ذاتی پسند وناپسند سے بالاتر ہونا اور ایمان داری کس لمحے گہری کھائی میں دفن ہو گئی، یہ تو ہمیں پتا بھی نہیں چلا۔ اب تو جس ’’دیے‘‘ میں جان ہوگی وہی ’دینے والا‘ رہ جائے گا، باقی خاموش کتابیں، چپ سادھے اخبار سے لے کر ٹھیری ہوئی تحریریں سبھی تو قصہ پارینہ بننے لگی ہیں، یوں اب صحافت ’سرمایہ داری‘ کا ہوبہو مترادف بننے کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔پہلے پیسے لینے والے صحافی مجرم کہلاتے تھے، ایسے نامہ نگار کو لعن طعن کی جاتی تھی اور وہ منہ چھپائے پھرتا تھا، مگر اب تو اسے ’بامعاوضہ ولاگر‘ کہہ کر متعارف کرایا جاتا ہے۔ اِس کے ’ڈیجیٹل رقص‘ سے پہلے کسی کی خبر اور ’کالم‘ سے اگر کسی بھیڑیے کے ٹاؤن کی بو آتی تھی، تو پوری ایک پلٹن اُسے تھو تھو کرنے کو دوڑی چلی آتی تھی، آج بھانت بھانت کے ’خیال ونظریے‘ کسی بھی اعلانیہ اشتہار سے بدتر بنا کر بیچ چوراہے پر بیچا جا رہے ہیں اور کسی کو کوئی عار نہیں، بلکہ یہ تو باعث عزت وتکریم ہے!باقی اِبلاغی ادارے تو پہلے ہی وڈیرے، سرمایہ دار، سیاست داں اور ’نامعلوم افراد‘ دھڑلے سے خرید ہی رہے ہیں، پہلے جو چُپکے سے ’میڈیا کیمپین‘ سماجی بہبود، آگاہی، انسانی حقوق، مساوات اور انصاف کے نام پر ملا کر کھلائی جاتا تھا، آج سرِعام ہونے لگی ہے۔ایسے میں ضمیر، اخلاقی اقدار اور پیشہ ورانہ اصول سب ’برائے فروخت‘ ہوچکے ہیں۔ آپ ان ’یوٹیوبرز‘ اور ’انفلونسرز‘ کو پیسے دیجیے اور اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرا لیجیے، بلکہ ’تعلقات عامہ‘ (پی آر) کے مختلف ادارے باقاعدہ یہ سارے کام کروا کر دیتے ہیں۔ پھر یہی ’بکاؤ دانش وَر‘ آپ کو بتائیں گے کہ کس جماعت کو ووٹ دینا ہے، کس شخصیت نے کتنا کام کیا ہے اور کون سا ’سماجی ادارہ‘{ اچھا ہے اور کون سی غیرسرکاری تنظیم چھپی رستم۔۔۔؟ شاید یہ کام پہلے بھی ہوتا ہوگا، لیکن ایک گھناؤنا جرم تھا کہ آپ کسی سے روپیا پکڑ کر لوگوں کو اس کی مرضی کی باتیں بتائیں۔ وہ عوام جو آپ کو رائے ساز مانتی ہے، آپ کو سن کر پڑھ کر اپنی رائے قائم کرتی ہے، اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے اپنے قلم اور ضمیر کی قیمت لگا رکھی ہے کہ لاؤ روپیا اور ابھی آدھے گھنٹے میں ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر تمھارے نام کا ’ٹرینڈ‘ سب سے اوپر ٹنگا ہوا دکھائی دے جائے گا۔۔۔! ذرا سے پیسے دو اور ابھی ’سوشل میڈیا‘ پر بیٹھے ’بکاؤ‘ اس موضوع پر یہاں سے وہاں تک ایک ہاہاکار مچا کر رکھ دیں گے!ہم جیسے ادنیٰ طالب علم اشتہارات کی وجہ سے مختلف اِبلاغی اداروں کے کاروبار کے فائدے اور نقصان ماپتے ماپتے اب ہار بیٹھے ہیں کہ اب نہیں معلوم کہ فائدے تو بالواسطہ کن اعلیٰ پیمانوں پر وصول ہوتے ہیں، ان کے تانے بانے اب مختلف عہدوں کے ملنے اور حکومتوں کے بدلنے سے لے کر نہ جانے کہاں کہاں تک جاتے ہیں۔ اگر ایک طرف ’ڈیجیٹل ڈھنڈورچی‘ کھلم کھلا ’بکاؤ مال‘ ہیں، تو ’اِبلاغی ادارے‘ بھی تو نیلام در نیلام ہوئے جا رہے ہیں۔کسی سیاست دان، وڈیرے اور سرمایہ دار کو کیا پڑی ہے کہ سماج میں خبر پہنچے، سچ پھیلے، حالات حاضرہ کی سُن گن ملے اور سچی مچی کی ایسی آگاہی ہو جو پروپیگنڈا یا کسی گروہی مفاد سے بالاتر صرف لوگوں کی خیرخواہی کے واسطے ضروری ہو۔ ان کو بھی تو صرف اپنے مفاد سے مطلب ہے، صحافت کے چوغے میں چھپے ہوئے ان دیکھے اور اَن دیکھے بالادست طبقات نے اب نام نہاد صحافت کا تکلف بھی ترک کر دیا ہے۔ اب کسی طرح ناظرین اور قارئین کو میٹھے میں ملا کر اور چٹخارے دلوا کر چُپکے سے اپنے مطلب کی بات لوگوں کے دماغوں میں انڈیلنی ہے، اپنا ’سودا‘ بیچنا ہے، اپنا چہرہ بچانا ہے اور اپنے جائز وناجائز مفادات اینٹھنے ہیں۔ باقی خبر۔۔۔؟ وہ کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ خبر تو اب عملاً صرف وہی ہے جو کسی زور کے دھماکے سے ہر خاص وعام کے ہاتھ میں ’جلتے بجھتے جھنجھنے‘ میں بجتی سنائی اور اچھلتی دکھائی دے۔۔۔! سچ گیا تیل لینے۔۔۔ حق گیا بھاڑ میں۔۔۔ معروضیت کا اچار سڑ گیا اور دیانت داری اب بساند زدہ ہوئی۔۔۔کیا کہا، توازن۔۔۔؟ وہ تو جب لوگوں میں نہیں رہا تو باتوں یا خبروں میں کاہے کو باقی بچتا۔جس کا جی چاہا آگاہی کے نام پر ’خبر‘ بنا کر اپنا منجن بیچا، جس کا جی چاہا تو تڑاخ اور گالم گلوچ کرا دی، کسی نے ویڈیو لیک کر دی، کسی نے خفیہ آڈیو پھینک دی اور کچھ نہیں تو انٹرٹینمنٹ کے نام پر اور کوئی نمونہ پن اچھال دیا کہ اب تو آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں، جو چاہیں بول سکتے ہیں، جیسے چاہیں دکھا سکتے ہیں۔سچ جھوٹ اور صحیح غلط کچھ نہیں ہوتا، بس کسی طرح ہمارے پاس مجمع اکھٹا ہونا چاہیے۔۔۔ ’موبائل فون کے قیدیوں‘ کو کسی طرح گھیر گھار کر کسی ’لنک‘ پر پہنچانا ہے، دھوکے سے کسی ویڈیو کو آخر تک دکھوانا ہے، بس اپنے ’یوٹیوب چینل‘ کی بڑھوتری ہو اور ہمارا مواد اُڑ کر بکے، تاکہ اس کے نتیجے میں ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ ڈالر آئیں۔۔۔! خبردار! جو چوں چرا کرنے کی ذرا بھی کوشش کی تو ’سوشل میڈیا‘ سے نکل کر ایسے ایسے ’وارداتیے‘ چڑھ دوڑیں گے کہ وضاحتیں دیتے بھی نہ بن پڑے گی! اور پھر آپ چاہ کر بھی سماج کے مروج اصولوں کے مطابق ’برابر‘ نہ ہو سکیں گے۔اور کیا کہا آپ اپنے ’سوشل میڈیا‘ سے کچھ کر لیں گے۔۔۔؟ تو ’سوشل میڈیا‘ کے مالکان کے ساتھ پیٹ نہیں لگا کیا۔۔۔؟ ان کو اپنے ملازمین کی تنخواہیں نہیں دینیں۔۔۔؟ ان کے بھی اپنے مفادات ہیں، ان کو روپیا دینے والوں کی مرضی کی بات ہوگی تو وہ دنیا جہاں میں پھیلا دیں گے اور نہیں تو اسے آپ ہی کے تھوبڑے کے سامنے ہی دفن رہنے دیں گے اور آپ کو خبر ہی نہیں ہونے کی کہ آپ کے نقطۂ نظر کو لوگوں نے نظرانداز کیا یا ’فیس بک‘ اور ’ایکس‘ والوں نے اسے درگور کیا۔۔۔؟کبھی زندہ درگور کرنے پر بھی ان کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوتا، اور وہ جل بھن کر آپ کو آپ کی اوقات بھی یاد دلا دیتے ہیں، کہ سدھر جاؤ! اور اگر آپ پھر بھی نہیں مانتے تو وہ سرے سے آپ کا قصہ ہی تمام کر دیتے ہیں، لو اور پھیلو اپنی آزادی اظہار کے نام پر۔۔۔اب جاؤ، کہاں جاؤ گے۔۔۔؟ اور ’ایکس‘، ’فیس بک‘ اور ’انسٹا‘ کے بعد دنیا کی کس ’دیوار‘ سے جا کر اپنا سر پھوڑو گے۔۔۔؟ جیب تمھاری خالی، اب کسے جا کر بتاؤ گے کہ حق کہاں اور سچ کس بلا کا نام ہے۔۔۔؟ کہاں محدود اور ادھورا سچ بتا کر سامنے سورج کا انکار کیا جا رہا ہے اور کہاں کس جگہ جا کر پکارو گے کہ یہ جو سب کہہ رہے ہیں یہ تو خلاف حقیقت ہے! اور یہ فیصلہ اور یہ بات تو آئین اور دنیا کے دستور انسانی کے فلاں فلاں دفعات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔۔۔؟ تمھاری آواز گھٹے ہوئے گلے میں ہی کہیں اٹک کر رہ جائے گی۔ اس لیے آج صرف دَھن، دولت ہی اصل سچ ہے، جس کی جیب بھری ہے، بس ایک وہی سچا ہے اور اس لہو نچوڑ مہنگائی میں خالی جیب اور خالی پیٹ کے آگے آپ خود مزید کسی سچائی پہنچانے کے متحمل نہیں رہیں گے، دوسرے تو پھر بہت دور کی بات ہے۔(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین)