تحریر: شاہد صدیقی۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ایجادات نے ہماری زندگیوں میں بہت سی آسائشیں پیدا کر دی ہیں۔ ہمارے اردگرد اشیاء کی بہتات ہو گئی ہے لیکن اس سارے عمل میں غیر محسوس طور پر ہماری شخصی آزادی ختم ہونے لگی ہے اور اس کی جگہ کارپوریٹ کی منطق نے لے لی ہے۔ اپنے طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی میں آزاد ہیں لیکن دراصل ایک ایسے معمول کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں‘ جس کی ڈوریاں بڑی بڑی کارپوریشنز اور کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں‘ جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے۔ نیو لبرل ازم کے فلسفے پر استوار ان کمپنیوں کی پہلی اور آخری ترجیح پیسہ ہے۔ اس سارے عمل میں اقدار کو جان بوجھ کر پسِ پشت ڈالا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں دلچسپ مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم برضا و رغبت اپنے آپ کو استحصال کے لیے پیش کرتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سوشل میڈیا کی ہے جس کے ریشمی جال نے ہمیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس ریشمی جال کے مختلف ناموں سے کئی چہچہاتے رنگ ہیں۔ حال ہی میں انٹرنیٹ پر ایک ڈاکومنٹری سوشل میڈیا ڈالیمانے سوشل میڈیاکے اثرات اور اس کے پسِ پردہ عزائم کو بے نقاب کیا ہے۔
اس سے پہلے کہ سوشل میڈیا کے اثرات پر بات کریں ہمیں اس ماڈل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں یہ کمپنیاں انسانی تاریخ کی امیر ترین کمپنیاں بن گئی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے کوئی فیس نہیں لی جاتی تو پھر یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ ایڈورٹائزرز ان کمپنیوں کو پیسے دیتے ہیں۔ اس کے بدلے میں یہ کمپنیاں کیا چیز بیچتی ہیں؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کا جواب ہمیں پوری بحث کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ایڈورٹائزرز یہ چاہتے ہیں کہ ان کی مصنوعات زیادہ سے زیادہ فروخت ہوں‘ اس کے لیے انہیں کمپنیوں سے یقین دہانی چاہیے ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی مصنوعات تک پہنچ کر انہیں خریدیں گے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں ممکنہ گاہکوں کے حوالے سے پیشگوئی کر سکیں۔ اچھی اور معتبر پیشگوئی اسی صورت ممکن ہے جب ڈیٹا تک رسائی ہو۔ جتنا زیادہ اور مستند ڈیٹا ہو گا اتنی ہی قابلِ اعتماد پیش گوئی ہو سکتی ہے۔ اس عمل میں پہلا مرحلہ لوگو ں کو جاننے کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی ان کے بارے میں پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا کمپنیاں بڑی مہارت سے ہماری ٹریکنگ کرتی ہیں‘ مثلاً ہم نے کون کون سی پوسٹس لگائیں؟ کن پوسٹس کو لائیک کیا؟ کِن لوگوں کو فالو کیا؟ کون کون سی وڈیوز دیکھیں؟ ہر وڈیو کو کتنی دیر اور کتنی بار دیکھا؟ سوشل میڈیا میں ہماری ساری حرکات و سکنات نہ صرف ریکارڈ ہوتی رہتی ہیں بلکہ ان کو مانیٹر بھی کیا جاتا ہے لہٰذا سوشل میڈیا کمپنیوں کو ہماری نقل و حرکت ہماری عادات واطوار ہماری پسند و ناپسند، ہمارے مزاج اور ہماری کمزوریوں کی مکمل خبر ہوتی ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ ہوتا ہے ہم کس وقت تنہا ہیں اور کس وقت اداس ہیں۔ غرض انہیں ہماری شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے پیش گوئی کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ وڈیو کے مطابق اس ڈیٹا تک رسائی کے لیے پہلا اقدام ہمیں انگیج کرنا ہوتا ہے‘ اس کے لیے سوشل میڈیا کمپنیاں مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں میں کام کرنے والے ڈیزائنرز کسی بھی ماہرِ نفسیات کی طرح ذہنِ انسانی سے واقف ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ انسانی ذہن کو کیسے تسخیر کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا انگیجمنٹ کے بعد اگلے مرحلے کی طرف لے جاتا ہے اور یہ مرحلہ ایڈکشن کا ہے۔ آپ اپنے اردگرد اکثر ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے جوصبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک سوشل میڈیا کے ریشمی جال میں اپنی منشا اور رضا سے پھڑپھڑا رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کمپنیاں انسانی نفسیات اور خودپسندی کے جذبے سے واقف ہیں اور اسی انسانی کمزوری پر اپنی عمارت کھڑی کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے فیس بُک یا ٹویٹر یا انسٹاگرام پر زیادہ ایکٹو رہنے والے لوگ ہردم اپنی ذات کی منظوری دوسروں سے چاہتے ہیں۔ یہ نرگیست انہیں ہر دم بے چین رکھتی ہے۔ انہیں ہر لمحے یہ جستجو ہوتی ہے کہ ان کی پوسٹ پر کتنی Likes آئی ہیں، کتنے لوگوں نے انھیں ری ٹویٹ کیا ہے۔ یوں اپنی ذات کی اپروول کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔اس سفر میں ہم بزعمِ خود اپنے آپ کو ایک ایسے ہیرو کے روپ میں دیکھ رہے ہوتے ہیں‘ جس کی ہر بات، ہر ادا، اور ہر تجویز پر لوگ لائیکس‘ کمنٹس اور ری ٹویٹس کی صورت میں داد دیں۔ یہی وجہ ہے کہ محفل میں بیٹھے ہوئے بھی کچھ لوگ بار بار اپنے موبائل پر نظر رکھتے ہیں کہ اب لائیکس کی تعداد کتنی ہو گئی ہے۔ انسانی شخصیت میں تجسس اور خودپسندی کے انہی پہلوؤں کو سوشل میڈیا کمپنیاں ایکسپلائٹ کرتی ہیں‘ حتیٰ کہ سوشل میڈیا کا جنون ایک ایڈکشن بن جاتا ہے۔ ایک ایسا نشہ جس کے استعمال کے بغیر ہمارے اعصاب اینٹھنے لگتے ہیں اور ہماری کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جس طرح کسی مچھلی کو پانی سے نکال کر ریت پر پھینک دیا جائے۔ یوں سوشل میڈیا کمپنیاں انگیجمنٹ کے مرحلے کے بعد ہمیں ایڈکٹ بنانے کا مرحلہ بخوبی طے کر لیتی ہیں۔ ان دو مرحلوں کا اصل مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ ہم لوگ کون ہیں اور ہماری پسند اور ناپسند کیا ہے؟ اب سوشل میڈیا کمپنیاں تیسرے مرحلے کی طرف بڑھتی ہیں جس کا مقصد ہمارے رویوں میں وہ تبدیلی لانا ہے اور جس کے پیسے ان کمپنیوں نے اپنیایڈورٹائزرز سے وصول کیے تھے۔ یہ کام انتہائی مہارت سے کیا جاتا ہے۔ ہماری شخصیت کے بارے میں سب کچھ جان لینے کے بعد غیر محسوس طریقے سے ویڈیوز اور اشتہارات کے ذریعے ہماری پسند و ناپسند میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ بظاہر ہم اپنی مرضی سے چیزوں کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل یہ سوشل میڈیا کا اپنا پھیلایا ہوا وہ ریشمی جال ہوتا ہے جس میں ہم اپنی رضا اور رغبت سے گرفتار ہو جاتے ہیں اور سوشل میڈیا کے پہلے سے طے کردہ سکرپٹ پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے رویے کی یہی تبدیلی وہ پروڈکٹ ہے جسے سوشل میڈیا کمپنیاں ایڈورٹائزرز کو بیچتی ہیں۔ یوں اس ماڈل کے تین کونے ہیں ایک کونے پر ایڈورٹائزرز ہیں جن کا کاروبار سوشل میڈیا میں اشتہاروں کی وجہ سے ترقی کرتا اور یوں ان کے منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کمپنیاں ہیں جو ایڈورٹائزرز سے اپنی خدمات کی خطیر رقم وصول کرتی ہیں‘ اور تیسرے کونے پر وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور جن کے رویے میں تبدیلی کر کے سوشل میڈیا کمپنیاں اسے ایک پراڈکٹ کے طور پر بیچتی ہیں۔ دیکھا جائے تو ایڈورٹائزرز اور سوشل میڈیا کمپنیاں تو خوب پیسے کما رہی ہیں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگ جن کو بطور پروڈکٹ بیچا جا رہا ہے ان کو کچھ نہیں ملتا۔ اس کے برعکس ان کی زندگیوں پر سوشل میڈیا کے انتہائی مضر اثرات مرّتب ہوتے ہیں۔ ہمارے سماجی رشتوں پر اس کا انتہائی منفی اثر پڑا ہے۔ جسمانی اور نفسیاتی امراض میں اضافہ ہوا ہے‘ اور بڑی سطح پر فیس بُک اور ٹویٹر کے منظم استعمال سے بعض ملکوں میں سیاسی عدم استحکام آیا ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر لیکن سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ ایک ایسی طلسماتی پگڈنڈی ہے جس پر ہم ایک معمول کی مانند چلتے جا رہے ہیں‘ کوئی جادو کا محل ہے جس کی چکا چوند میں ہم اپنے گھر کا رستہ بھول گئے ہیں یا کوئی ریشمی جال ہے جس میں ہم اپنی اسیری سے بے خبر اس کے لمس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔(بشکریہ دنیا)