تحریر: شعیب واجد
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں درختوں سے لیکر انسانوں اور کم سن بچی سے لیکر دوست ممالک تک کے خلاف شرمناک مہمیں سوشل میڈیا پرچلائی جاتی ہیں۔یوں پاکستانی وہ واحد قوم ٹہرے کہ وہ اُن چیزوں کے بارے میں بھی مہم چلاتے ہیں کہ جن کا انہیں خود کوئی سر پیر تک پتا نہیں ہوتا۔
چندو کی یہ بات سن کر پانڈو نے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ زرا اپنی اس بات کی وضاحت تو فرما دیجئے۔۔
اس پرچندو بولا میں اپنی بات کی وضاحت کیلئے ایک نہیں، چار مضبوط مثالیں تمہارے سامنے پیش کرسکتا ہوں ، جسے سن کر تم میری بات کا یقین کرنے پر مجبور ہوجاؤ گے۔
اچھا تو ایسی بات ہے تو پھرفٹا فٹ مثال نمبر ایک پیش کی جائے،پاںڈو نے بادشاہوں کے انداز میں چندو کوحکم دے ڈالا۔۔
چندو بولا کہ پہلی مثال سنو ، تم آج کل دیکھ رہے ہوگے کہ سوشل میڈیا پر آج کل ڈالر کے بائیکاٹ کی مہم چلی ہوئی ہے، اس بھیڑ چال میں ہر شخص سوچے سمجھے بغیر اس مہم کا ساتھ اس طرح دے رہا ہے کہ جیسے ہر لائیک اور شیئر پر اسے نیکیاں مل رہی ہوں،جبکہ ایک لمحے کیلئے بھی وہ یہ بات سوچنے کی زحمت نہیں کررہا کہ ڈالر اور اس کے ریٹ سے عام آدمی کا کوئی تعلق ہی نہیں،99 فیصد ڈالر کا لین دین تو بڑے تجارتی معاملات میں ہوتا ہے، مثال کے طور پر ہمیں 17 ارب ڈالر پیٹرول خریداری کی ادائیگی کے ضمن میں خرچ کرنا پڑتے ہیں،اگر ڈالر کا بائیکاٹ کرنا ہے تو سب سے پہلے پٹرول کا بائیکاٹ کرو، اور گاڑیاں اور کارخانے ہی بند کرادو،یوں سارا قصہ ہی تمام، باقی رہا ڈالرکا وہ لین دین، جو اوپن مارکیٹ میں ہوتا ہے،وہ تو مجموعی اخراجات کا صرف 1.0 فیصد ہے تاہم خبروں میں سب سے ذیادہ اسے ہی مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔
چندو کی بات سن کر پانڈو زرا سنبھل کر بیٹھ گیا۔
چندو بولے جارہا تھا،ہماری مجموعی درآمدات 45 ارب ڈالرتک پہنچ گئی ہیں،ڈالروں میں اتنی بڑی ادائیگی ہماری مجبوری ہے،ڈالر بائیکاٹ کی مہم چلانے والوں کو پتا ہی نہیں کہ وہ یہ مہم کیوں چلا رہے ہیں، اور اس کا مقصد کیا ہے۔یہ تھی مثال نمبر ایک ۔۔چندو یہ کہہ کر اب چپ ہوگیا۔۔
ہممم۔۔تیری یہ بات کچھ دل کو تو لگی ہے،اچھا سوشل میڈیا پر عوامی بھیڑ چال کی دوسری مثال پیش کی جائے؟ پانڈو نے جیسے حکم دیا۔
اس پرچندو بولا کہ چین ہمارا بہترین دوست ملک ہے،صنعتی اوردفاعی لحاظ سے اتنا طاقتور ہے کہ امریکا تک کو منہ دے رہا ہے،چین میں جرائم نہ ہونے کے برابرہیں،لیکن چند چینی جرائم پیشہ افراد اگر پاکستان میں پکڑے گئے ہیں تو ان کی وجہ سے سوشل میڈیا پرتمام چینی باشندوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا ہے،جو دونوں قوموں کے تعلقات کے ضمن میں نہایت افسوس ناک صورتحال ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب چینی شہریوں کے خلاف انتہائی سنگین جھوٹی خبریں بھی پھیلائی جانے لگی ہیں،جس سے ان کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔مثال کے طور پرخبر چلائی گئی کہ چینی انجینئر نے پاکستانی مزدور کو آگ کی بھٹی میں دھکا دے دیا۔لیکن بعد میں یہ خبر غلط نکلی۔
چندوکی بات سن کر پانڈو نے کہا کہ واقعی سوشل میڈیا ایک دم بے بنیاد رائے بنا دیتا ہے، کچھ روز سے میں بھی یہ خبریں پڑھ کر چینی باشندوں سے نفرت سی کرنے لگا تھا۔تاہم اب مجھے خود پر افسوس ہورہا ہے۔
چندو بولا اس سلسلے میں الیکٹرونک میڈیا اسپارک پلگ کا کام کرتا ہے، خبرچلا کر پیچھےہٹ جاتا ہے،باقی کام سوشل میڈیا جانے۔
پانڈو بولا کہ اچھا تیسری مثال پیش کی جائے۔اس پر چندو نے کہا کہ تمہیں یاد ہوگا کہ کچھ ماہ قبل ہماری قوم ایک درخت ’’کونو کارپس‘‘ کے پیچھے لٹھ لیکر پڑگئی تھی؟ہمارا شمار دنیا میں درخت کاٹنے والی قوموں میں ہوتا ہے، ہم جنگلات لگانے اور فطرت کا حسن تباہ ہونے سے بچانے والوں میں سب سے پیچھے ہیں۔ایسے میں ہمیں ایک درخت ایسا ملا جو کم پانی ، سورج کی تپش کے باوجود اور بغیر دیکھ بھال کے بھی زندہ رہ جاتا ہے، سفیدے (یوکلپٹس) کی فیملی کا یہ رکن کونو کارپس ہے ، جس نے کراچی سمیت ملک بھر کے ان مقامات پر بھی ہریالی اور سایہ پیدا کیا جہاں پانی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ایسے میں کسی عقل مند نے ایک روز اس درخت کے خلاف کچھ لکھ دیا، ساتھ میں کچھ سائنسی ’’حوالے‘‘ بھی شیئر کردیئے ، بس پھر کیا تھا، پھردنیا نے دیکھا کہ ایک قوم ایسی میدان میں آئی کہ اس نے ایک درخت کومٹانے کیلئے کمر ہی کس لی۔کونو کارپس کے خلاف ’’ایسا ایسا‘‘ مواد پیدا کرکے شیئر کیا گیا، کہ بڑے بڑے ماحولیات دان بھی حیران رہ گئے۔خیر وہ شعورسے عاری مہم تو ایک دن جھاگ کی طرح بیٹھ جانی تھی اور بیٹھ بھی گئی، لیکن پاکستانی قوم کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ضرور لگا گئی کہ یہ ڈیڑھ ہوشیار اور کانوں کی کچی قوم ہے۔
چندو نے پانڈو کو اس وقت کسی گہری سوچ میں گم پایا،چندو کے ہلانے پر پانڈو چونکا اور بولا کہ واقعی اُن دنوں میں بھی قدرت کے اس تحفے کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوگیا تھا۔ خیر، تُو اب چوتھی مثال بتا۔
چندو بولا اور چوتھی مثال ایک تیرہ سالہ بچی پرکی گئی بہتان تراشی کی ہے،جس بچی کو دہشت گردوں نے گولیاں ماریں اور فخر سے واردات کی ذمہ داری بھی قبول کی،لیکن دہشت گردوں کے سوشل میڈیا پرحامیوں نے واقعے کا رخ موڑنے کیلئے الٹا بچی پر ہی الزامات لگانا شروع کردیئے۔یہ بچی ملالہ یوسف زئی تھی،جو آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی،کم عمر لڑکی کے خلاف سوشل میڈیا پراس قدرجھوٹ لکھا گیا اور ایسے ایسے الزامات لگائے گئے کہ وہ سن کرہر صاحب شعور انسان نے دکھ محسوس کیا۔ساتھ ہی واقعے کی نوعیت اور گولیوں کے زخم سے متعلق بھی درجنوں من گھڑت تاویلات پیش کی گئیں،جس سے عام شہری، دہشت گردی کے سنگین واقعے کی مذمت کے بجائے فضول بحث میں الجھ کر رہ گئے۔اور یہی اس وقت دہشت گردوں کی کامیابی بھی کہی جاسکتی تھی۔
چندو کی بات سن کر پانڈو ایک لمحے کو دنگ سا رہ گیا۔بولا کہ واقعی اس زمانے میں ، میں خود بھی شاید اسی مہم کا شکار ہوگیا تھا، حالانکہ مساجد اور پبلک مقامات پر دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے والوں نے ہی ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، لیکن اس وقت کچھ ’’سوشل میڈیا ٹیموں‘‘ نے ہمیں واقعی گُھما کر رکھ دیا تھا۔
پانڈو کی بات سن کر چندو مسکرا اٹھا، بولا کہ جانی اسی لئے کہتا ہوں کہ شعور کا دامن کسی صورت ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے۔ورنہ آپ کو بہکانے کیلئے اب صرف شیطان ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی کام کررہا ہے۔ پانڈو نے کہا بات تو ٹھیک ہے تیری۔چل اسی بات پر تجھے چائے پلاتا ہوں۔دونوں کا رخ اب چائے کے ہوٹل کی جانب تھا۔(شعیب واجد)