تحریر : حمزہ ساجد
آج کل کے ترقی یافتہ دورمیں انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکی اہمیت سے انکارناممکن ہوگیاہے,انٹرنیٹ اورسوشل میڈیالوگوں کوخبریں اورمعلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ فن معاش کازریعہ بھی بن گیاہے,آگے بڑھنے سے پہلے ہم سوشل میڈیاکی ابتداپرنظرڈورانے کی کوشش کرتے ہیں, بیسویں صدی میں انٹرنیٹ کے عظیم انقلاب کے بعد 1997 میں پہلی six ڈگری نامی سوشل میڈیا ویب سائٹ متعارف کروائی گئی جس کا مقصد لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھناتھاتاکہ دنیاکے کونے کونے میں مقیم افراداپنے پیاروں سے ہمہ وقت جڑے رہ سکیں,یہ سوشل سائٹ اپنی ترقی کے منازل طے کرنے کی جانب گامزن تھاہی لیکن اس نے لوگوں کی ضروریات کواسطرح پوری نہیں کیاجسطرح کرناچاہیے تھا, ٹیکنالوجی کے اس سفرمیں 2004 میں مارک زوکربرگ نامی شخص نے دور حاضر کی سب سے بڑی سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کااضافہ کردیا, جس نے لوگوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں لوگ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے کےساتھ ساتھ اپنی چیزیں باآسانی دوسروں سے شیئر کرسکتےتھے,دھیرے دھیرے یہ سائٹ ترقی کرتی گئی ، آج اس ویب سائٹ کودنیاکاسب سے بہترین ویب سائٹ سمجھاجاتاہے.جس پردنیاکاہرفرداپنااکاؤنٹ کھولناپسندکرتاہے۔۔
عصرحاضرمیں سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کا اہم ذریعہ بن کرسامنے آیاہے جس شخص کی انٹر نیٹ تک رسائی ہے وہ ان سوشل ویب سائٹس سے دور نہیں ,2017 میں کئے گئے سروے کے مطابق پوری دنیا میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 2.46 فیصد تھی جبکہ ایک سال کے قلیل عرصے یعنی 2018 میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں 26 فیصد مزید اضافہ ہوا,یوں اس تناسب میں مسلسل اضافہ دیکھنے کومل رہاہے, اس کو صرف رابطے کا ہی اہم ذریعہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس سے انسان روز مرہ کے حالات واقعات سے آگاہی حاصل کرتا ہے,اس وقت پاکستان میں ہی کروڑوں کی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں لوگوں نے اس کو خبرحاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بنا لیا ہے مگر وہ اس بات سے ناآشنا ہیں،اس سائٹزپرآنے والی خبروں میں زیادہ ترصداقت نہیں ہوتی, کسی گروہ یا فرد کی جانب سے کوئی جعلی خبرشائع کردی جاتی ہے تو وہ ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاونٹ میں بڑی تیزی سے منتقل ہوتی ہے,اب جبکہ یہ جعلی نیوزایک سے دوسرے دوسرے سے تیرے بندے کے پاس پہنچتاہے تولوگ اس پر یقین بھی کرنے لگتے ہیں,اس وقت سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں جعلی خبروں کی بھرمار ہے اور روزانہ کی بنیاد پر فیس بک واٹس اپ ٹوئیٹراورانسٹاگرام پر ہزاروں کی تعداد میں جعلی خبریں پھیلائی جاتی ہیں جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں,گزشتہ دونوں ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جعلی خبرکی بدولت پانچ افراد لقمہ اجل بن گئے, اور آئے دن پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف پیجز سے من گھڑت اور بے بنیادخبریں پوسٹ کی جاتی ہیں جس کی تصدیق کئے بغیر پیج میں شامل ممبران اسے آگے بڑھادیتے ہیں جو کبھی کبھار ملکی سالمیت اور سماجی معاملات کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے,اور ان من گھڑت من چاہی خبروں سے لوگوں میں تشویش پیدا ہوتی ہے, لہذا ضرورت اس آمر کی ہے کے بنا تصدیق کے کوئی بھی خبر آگے نہ بڑھائی جائے۔۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ خبر کی تصدیق کس طرح ممکن ہے اوراسکی روک تھام کیسے ممکن ہے ,توسب سے ضروری کام حکومت کوکرناہےان من گھڑت خبروں سے نمٹنے کے لیئے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں ,حکومت سوشل میڈیا کی مانٹرینگ کیلئے کمیٹی بنائیں,ان کمیٹی میں ایسے ممبران کو رکھیں جن کوسوشل میڈیاپرپوری طرح عبورہو, کمیٹی کے زمے یہ کام لگائیں کہ وہ چوبیس گھنٹے سوشل میڈیاکی ٹھیک ٹھاک مانٹیرنگ کرے گی,جس کسی اکاونٹ سے جعلی خبرنشرہورہی ہواس کووارننگ جاری کریں اوراکاونٹ بن کرادیں تاکہ وہ مزیدجعلی خبریں پھیلاکرمعاشرے کی تباہی کازریعہ نہ بن سکیں, ویسے بھی یہ ففتھ جنریشن وارکا دور ہے جس میں اپنے دشمن ملک کے خلاف اسی شوشل میڈیا پر منفی پروپگینڈاکیا جاتا ہے اور وہاں کے عوام کو ان کے برسراقتدارحکمرانوں کے خلاف بغاوت کے لیےاکسایا جاتا ہے تاکہ بنا ہتھیار کے دشمن ملک کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایاجاسکے اوراپنے مقاصدحاصل کرتے ہوئے انہیں زیرکرسکیں, اس معاملے میں ہم عوام کوبھی ایک کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہےاور اپنے پیارے وطن پاکستان کو دشمن کے جھوٹے پروپگینڈے سے دور رکھنے کی ضرورت ہے, ساتھ ہی بحثیت پاکستانی ہمیں حتی المکان جعلی خبروں سے بچنے کی ضرورت ہے, اگرکوئی جعلی خبرملے تواسکوفوراآگے بھیجنے سے پہلے تحقیق کریں کہ آیایہ خبرصحیح ہے یاغلط, آپ کی ایک خبرکسی کی گھراجاڑسکتی ہے, توکسی کی زندگی اجیرن کرسکتی ہے, کسی کوموت کے منہ میں دھکیل سکتاہے توکسی کوکسی سے جداکرسکتاہے, لہذاہماری زمہ داری ہے ہم سوشل میڈیاکومثبت طریقے سے استعمال کرتے ہوئے قومی ترقی میں اپناحصہ ڈالیں تاکہ یہ ملک حقیقی معمنوں کی قائدکاپاکستان بن سکے, اقبال کے خوابوں کی تعبیرہوسکے.(حمزہ ساجد)