تحریر: قمر زمان۔۔
محلہ فریدآبادبیرون بوہڑگیٹ ملتان۔۔۔ اپنے سامنے والے گھر کے لنگوٹئے پرویزحسن کانام کبھی نہیں بھول سکتا۔کہنے لگا مری چلتے ہیں سیرکو۔۔ ۔ میں نے کہاپیسے نہیں ہیں۔۔کہا کتابت سیکھ لو۔ دومہینے میں اتنے پیسے جمع ہوجائیں گے کہ مری گھوم لیں گے۔ گلی میں ہی چارپائی بچھائی ،بٹرپیپر مسطر پرچپکاکرقلم چلاناشروع کردیا۔ سارا دن روزنامہ امروزملتان کی خبروں پرنونمبرکی نب چلاتارہتاتھا۔ پندرہ دن بعدہی استاد پرویزحسن نے ہی ہفت روزے کاکام لاکردے دیا۔ میٹر کی کتابت بیس روپے کا ایک کالم۔
روزانہ تین کالم لکھ کرپیسے جمع کرنے لگا۔ دوست نے ہی محراب اخبار میں کاتب رکھوادیا۔چھ سوروپے ماہانہ تنخواہ طے ہوئی۔وہاں پرنیوزایڈیٹر کو ریڈیوسے مانیٹرنگ کرکے خبرنقل کرتے دیکھا ۔سوچایہ کام تومیں بھی کرسکتاہوں ۔بس پھر کیاتھا،مری توگئے نہیں۔ باغ لانگے خان لائبریری کی فیس بھرکررکنیت لے لی۔ روزانہ اخبارپڑھنامعمول بنالیا۔ رسالے کتابیں اور ناول ہرچیز دستیاب تھی مگرمیں دوروز بعدملتان پہنچنے والے جنگ کراچی اورامن کراچی کی تمام خبریں ہی پڑھتارہتا۔آرٹیکلزاوراداریئے بورلگتے تھے۔
سترہ سال کی عمرتھی۔ کزن کی شادی میں کراچی آناہوا۔ صدررینبوسینٹرکی بلندعمارت پراعلان اخبارکابورڈدیکھا۔اخبارملتان سے بھی شائع ہوتاتھا ۔دل نے چاہا دفتر دیکھتے ہیں، لفٹ سے اوپر پہنچا، تین کمروں کا فلیٹ دفتر بناہوا تھا۔۔لاونج میں چپڑاسی سے پوچھا، کاتب کی جگہ خالی ہے؟ چپڑاسی کا جواب آنے سے پہلے سرخیاں لکھنے والے صادق شہزاد اندرونی کمرے سے باہر آگئے، میرا حلیہ دیکھتے ہی کہا۔۔ سرائیکی ہیویں۔۔میں نے تعارف کرایا،ملتان سے تعلق ہے۔۔ صادق شہزادبڑی اپنائیت سے اندرونی کمرے میں لے گئے۔ نیوزایڈیٹر انجم لاشاری صاحب سے ملوایا۔ انھوں نے فوری طورپرخبریں کتابت کیلئے دے دیں۔ دوکالم روزانہ کی کارگزاری تھی۔ میری رفتاراچھی تھی ۔اسی وقت نوکری پررکھ لیا۔ جانے نہیں دیا۔میرے ساتھ والی سیٹ پرسجادعباسی سمیت چارمزید سینئرکاتب بھی کتابت میں مصروف تھے۔میری تنخواہ بارہ سوروپے لگادی گئی۔ صادق شہزادنے ہی رنچھوڑلائن میں اپنے ساتھ رہائش دے دی ۔یہاں پیارے ساتھی یامین سے ملاقات ہوئی۔
یہ 1988کاکراچی تھا۔اخبارات کتابت سے کمپویٹرکی طرف منتقل ہورہے تھے۔ یامین نے مجھے بیوپاراخبار میں پروف ریڈنگ کی نوکری دلوادی ۔بارہ سوکی نوکری چھوڑکر800روپے میں کام کرنے لگا۔ جنگ کراچی سے ریٹائرہونے والے نیوزایڈیٹریونس ریاض صاحب کی کڑک نگرانی میں صبح چھ بجے بی بی سی ،رات آٹھ بجے بی بی سی ، رات دس بجے بی بی سی سننے کی ڈیوٹی لگی ۔ خبریں نقل کرناشروع کردیں ۔ صحافت کی الف ب سیکھنے لگا ۔ یونس صاحب کے ساتھ عبدالحمید چھاپراصاحب سے سیکھنے کاموقع ملا۔ فاضل جمیلی اورخوشنودانوربھی تھے۔ فاضل جمیلی بیوپار چھوڑکرروزنامہ پبلک میں گئے ۔ میں بھی ملنے پہنچ گیا۔ انھوں نے انتہائی محترم انور سن رائے صاحب اورہردلعزیز نذیرلغاری صاحب سے ملوایا۔ انھی کی شفقت سے جونیئرسب ایڈیٹرکے طورپرشاگردی مل گئی ۔
یہیں پرسجادعباسی، جاویداقبال، جوادمحمود، امتیازشاہ، علی عمران جونیئر،سراج احمد، ضیامظہر،خورشیدانجم، منصوردرانی اورموجودہ دورکے کے کئی دیگر معروف صحافیوں کے ساتھ بھی کام کرنے کاموقع ملا۔
وقت بے رحم ہے بدلتارہا ۔اخبارات بند ہوتے رہے ۔نئے نکلتے رہے ۔کتابت گئی۔کمپیویٹرآیا۔ہاتھ سے لکھنابندہوگیا۔پھرٹی وی کادورآگیا۔کہیں سب ایڈیٹرتوکہیں شفٹ انچارج ۔کسی اخبار میں نیوزایڈیٹرکی ذمے داری توچینلز میں بلیٹن کی ذمے داری۔کہیں بارہ گھنٹے کام ۔کہیں دس گھنٹے ۔ کہیں رضاکارانہ خدمات ۔کہیں بغیرویکلی آف کے مہینوں سرکھجانے کی فرصت ن ملی۔ ہردورمیں نیاکام۔ نئی جستجو۔نئے لوگ ۔ نئی ٹیم۔ نئے باس۔کوئی نہ کوئی کچھ نہ کچھ سکھاتاہی رہا اور سیکھنے کاسلسلہ آج بھی تھما نہیں۔
گذشتہ روز پیارے ساتھی اظہرعلی خان نے فیس بک پرویڈیوپوسٹ میں کورونا کامثبت پہلودکھایا ۔کہتے ہیں ۔ کوروناوائرس کے باعث لوگوں کوتنہائی میسرآئی ہے۔اپنے بارے میں سوچنے کاوقت ملاہے۔میں نے بھی اپنا آپ کھنگالا۔ایک البم میں والد صاحب اوربیٹے کے ساتھ اپنی تصویر دیکھی ۔ دل کوچھوجانے والی فلم کی طرح سب کچھ نظروں کے سامنے آگیا۔
بیٹا22سال کاہوگیاہے۔میرے ماں باپ نے 24سال کی عمر میں میری شادی کرکے فرض نبھادیاتھا۔۔ قسمت میں کیالکھاہے ۔لکھنے والا ہی جانتاہے ۔لیکن فوٹو دیکھ کرسوچتاہوں ۔۔اب مری نہیں جاتا۔۔۔(قمرزمان)۔۔