تحریر: عطاالحق قاسمی۔۔
میں اپنے کالم کے دائیں بائیں یا اوپر نیچے شائع شدہ تجزیاتی کالم پڑھتا ہوں تو ہر دفعہ دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی گپ شپ والے کالم لکھنے کی بجائے سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کولیگز کی پیروی کرتے ہوئے سیاسی حالات حاضرہ اور سیاسی ’’آلات حاضرہ ‘‘کا جائزہ لیا کروں مگر اس ارادے پر عمل کرنے سے پہلے میں تازہ دم ہونےکیلئے ایسے تین چار کالم پڑھتا ہوں تاکہ ذہن اس اسلوب کے رنگ میں رنگا جائے او ر پھر اس مصنف کے ساتھ وہی سلوک کروں جو ہمارے ہاں صنف نازک کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے مگر سچی بات بتائو ںکہ میں اپنی تحریر کا سخت ناقد ہوں چنانچہ میں اپنے روٹین کے ننانوے فیصد کالم بھی ایڈیٹر کو بھیجنے سےپہلے خود ہی پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں ۔باقی ایک فیصد کے ساتھ یہ سلوک ایڈیٹر کے ذمے ہوتا ہے چنانچہ میں نے تین چار سیاسی تجزیاتی کالم لکھے مگر پھر ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاجو میں بزم خویش اپنے مخصوص رنگ میں لکھے ہوئے کالموں کے ساتھ کرتا ہوں۔
مگر بات یہ ہے کہ منزل تک پہنچنے کےلئے سفر کی صعوبتیں تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہیں اور میں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ میں سیاسی تجزیاتی کالم ایک نہ ایک دن ضرور لکھوں گا مگر اس کی کچھ شرطیں میں شاید کبھی پوری نہ کر سکوں مثلاً مجھے یاد ہونا چاہئے کہ جنرل ایوب خان نے کس سن اور کس تاریخ کو مارشل لاء لگایا تھا وہ کونسا برس تاریخ اور دن بلکہ رویہ تھا ،شام تھی یا رات تھی جب ان کے خلاف عوامی جدوجہد شروع ہوئی اور کون کون اس جدوجہد میں آگے آگے تھا اس طرح قیام پاکستان سے اب تک رونما ہونے والے اہم واقعات اس حوالے سے اہم شخصیات کون تھیں نیز تاریخ اور دن تک کوٹ کرنا پڑیں گے یہ توکچھ بھی نہیں انتخابات کے دنوں میں امیدواروں کا شجرہ نسب بھی بیان کرنا پڑتا ہے اور یہ بھی کہ امیدوار کتنے برس سے سیاست کے میدان میں ہیں تاہم آج کل کسی کو اتنی گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ زیادہ اہم باتوں کی طرف توجہ دیتے ہیں۔
پیشتر اس کے کہ میرے قارئین کے رونگٹے یہ سوچ کر کھڑے ہو جائیں کہ میں شاید آج تجزیاتی کالم کے چھابےمیں ہاتھ مارنے لگا ہوں یہ وضاحت کردوں کہ میرے لئے دنیا کا سب سے مشکل کام کسی کتاب پر تنقید اور تجزیاتی قسم کا ’’تجربہ‘‘ کرنا ہے چند روز قبل مجھے برادرم مظہر عباس کے تجزیاتی کالموں پر مشتمل کتاب سلیکٹر سے سلیکٹڈتک کے عنوان سے پڑھنے کو ملی میں ان کا باقاعدہ قاری اور ’’سامع‘‘ ہوں اور دوستوںکے درمیان گفتگو اس روز کے کسی تجزیاتی ٹی وی پروگرام یا کالموں پر بات ہوتی ہے تو میں ان کی طویل گفتگوئوں کے بعد آخر میں ’’صدارتی خطبہ‘‘ دیتا ہوں جس کا دورانیہ صرف دوحرفی ’’اچھا ہے یا برا ہے‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے مگر جب مظہر عباس کی بہت سی تحریریں ایک ہی جگہ پڑھنے کا موقع ملا تو پہلی دفعہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں اس پر تفصیلی اظہار خیال کروں چنانچہ میں کاغذ قلم لیکر بیٹھ گیا اور جو اظہار خیال کیا وہ آپ اب تک پڑھ چکے ہیں ،تفنن بر طرف سچی بات یہ ہے کہ میں نے جب ان کے کالموں پر مشتمل کتاب پڑھنا شروع کی ان میں سے بہت کم کالم ایسے تھے جو پہلے میری نظرسے نہ گزرے ہوں تاہم ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کے تین سو صفحات اب تک پڑھ چکا ہوں ۔پاکستان کی درہم برہم سیاسی تاریخ کے کئی اہم ادوار کی تفصیل ذہن سے محو ہو چکی تھی چنانچہ مظہر عباس نے مجھے ان کی یاددہانی کرا دی اس کتاب میں میری دلچسپی کی ایک وجہ مصنف کی خوبصورت نثر اور متوازن سیاسی نقطہ نظر تھا ہمارے ماضی اور حال کے بعض صحافی حضرات صرف صحافی نہیں ہو تے تھے بلکہ ان کی تحریر میں ادب کی چاشنی بھی نظر آتی تھی مظہر عباس انہی میں سے ایک ہیں میں ان کے کالم پڑھتا چلا گیا اور حیران بھی ہوتا رہا کہ یہ شخص کہیں بھی جذباتی رائے نہیں دیتا بلکہ بہت سے جذباتی مسائل پر بھی اس کا قلم پرسکون رہتا ہے۔
اگر میں غلط نہیں تو مظہر عباس ،عمران خان کے دیوانوں میں سے نہیں ہیں البتہ وہ ان کے حریفوں کے مقابلے میں انہیں رعایتی نمبرضروردیتے ہیں مگر جہاں اس کی گنجائش بھی نہ ہو وہاں وہ کھل کر ان پر بھرپور تنقید کرتے ہیں اس کی ایک بہترین مثال کتاب میں شامل ان کا کالم ’’پاکستان سیاسی گرداب میں ‘‘ میں ہے اس کالم کا صرف پہلا پیرا پڑھ لیں’’ افسو س صرف اس بات کا ہے کہ ہم سب سے زیادہ دنیا دیکھنے والے مغرب کو سب سے زیادہ سمجھنے و الے اخلاقیات کا درس دیتے کرکٹ لیجنڈ وزیر اعظم عمران خان نے اسپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیاورنہ وہ استعفیٰ دے کر ایک اعلیٰ مثال بھی قائم کرسکتے تھے کھلاڑی آخری بال تک ضرور لڑتا ہے مگر ہار جائے تو شکست تسلیم بھی کر لیتا ہے ۔‘‘مظہر عباس کے دوسرے بہت سے کالموں کے علاوہ یہ کالم بھی ان کے غیر جذباتی رویہ کا آئینہ دار ہے ۔مجھے مظہر عباس کے حافظے پر بھی رشک آتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کی سیاسی تاریخ کا ایک ایک باب انہیں ازبر ہے ۔پاکستان کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر ہمارے نصابی ’’مطالعہ پاکستان ‘‘ ایسا نہیں بلکہ ان نصابی اندھیروںسے حقیقت کی روشنی کی طرف لے جانے والا ہے ۔
بس اس سے زیادہ تجزیاتی کالم لکھنا میرے بس میں نہیں لہٰذا آخر میں آپ میرا صدارتی خطبہ سن لیں۔مظہر عباس شاندار انسان ہے صف اول کا لکھاری ہے، سیاسی کالم کی عمرزیادہ نہیں ہوتی مگر ’’سلیکٹر سے سلیکٹڈتک ‘‘ طویل عمر کی حامل ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سے سچ تلاش کرنے والوں کو ہمیشہ اس کی ضرورت محسوس ہوگی۔
اور اب آخر میں مظہر عباس کے ایک کالم کے اختتامی کلمات ان کلمات میں مظہر عباس کی پوری شخصیت آشکار ہے۔
1971ء میں’’سب اچھا ‘‘ لکھنے والے صحافی بھی تھے اور یہ بتانے والے بھی کہ ’’گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے ۔یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو‘‘۔ہم نہ مادر پدر آزادی صحافت چاہتے ہیں نہ مادر پدر حکمرانی ۔ہم تو قانون کی حکمرانی کے قائل ہیں۔
آپ اپنی طاقت آزمالیں، ہم اپنا حوصلہ۔ 1978ء کی تحریک کے دوران ایک ساتھی نے جیل سے خط میں کہا، ’’آپ لوگ پریشان نہ ہوں ہمارے حوصلے بلند ہیں۔یہ سزائیں، چھاپے، گرفتاریاں، کوڑے ہمارے عزم کو پست نہیں کر سکتے‘‘۔(بشکریہ جنگ)۔۔۔