تحریر: انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی۔۔
دسمبر 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں جلسہ گاہ میں فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا. مقامی انتظامیہ اور پولیس نے طاقتور حلقوں کے حکم پر جائے وقوعہ کو پانی سے دھو دیا. اس کارروائی سے شواہد مسخ ہوئے اور ملزمان تک رسائی بھی ممکن نہ ہوئی. لیکن راولپنڈی پولیس کی کارکردگی کا راقم کو اس وقت اندازہ ہو جب راقم فرنزک ایجنسی کے ڈائریکٹر سے ملنے گیا کہ کھوج لگایا جائے کہ قتل کی واردات میں کون سا اسلحہ استعمال ہوا. راقم اس وقت فرط حیرت میں ڈوب گیا جب ایجنسی کے سربراہ نے بتایا کہ جو ڈاکٹ پولیس نے تجزیہ کے لیے بھجوائے اس میں سے دو پستول نکلے ہیں ان میں ایک دیسی ساخت جس کو درانتی کا دستہ لگا ہوا ہے اور زنگ آلود بھی ہے جو شاید کبھی استعمال میں نہیں آیا جبکہ دوسرا ولایتی ہے اور جو خول بھجوائے گیے ہیں وہ ان دونوں ہتھیاروں سے مطابقت نہیں رکھتے. ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کا دیسی پستول تو چور بھی استعمال نہیں کرتے لیکن ہماری پیشہ ور پولیس نے اک بڑی سیاسی شخصیت کو اس سے قتل ہونے کا دعویٰ کردیا ہے. ان کا کہنا تھا یہ وہ پہلا کام ہے جس سے مبینہ ملزمان کو فائدہ ہوگا. پولیس کے تھانیدار نے کارروائی ڈالنے کے لیے یہ دیسی پستول پاس سے ڈال دیا ہوگا تاکہ دعویٰ کیا جائے کہ جائے وقوعہ سے استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد ہوچکا ہے اور تجزیہ کے لیے بھجوایاجاچکا ہے۔
اب پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر وزیرآباد میں فائرنگ کے بعد ایک تو جائے وقوعہ کو مناسب طریقے سے محفوظ نہیں کیا گیا اور بہت سے شواہد ضائع کردیئے گئے. اب پولیس کی طرف سے گرفتار ملزم کے اعترافی بیان میں استعمال کیے گیے اسلحہ کی متضاد اطلاعات اس کیس کو مس ہینڈل کرنے کے لیے کافی ہیں. پہلے اطلاع آئی کہ ولایتی پستول استعمال ہوا اب کہا جارہا ہےکہ ملزم نے چند روز قبل دیسی پستول ہمراہ گولیاں خریدا تھا اور فائرنگ میں استعمال کیا،،تفتیشی پولیس روایتی طریقہ سے پھر ڈاکٹ میں پاس سے اسلحہ ڈال کر حقائق چھپائے گی کیونکہ آزاد ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جائے وقوعہ سے دو تین قسم کے خول ملے ہیں لیکن ملزم ایک ہے.۔۔ کب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے پلے سے اسلحہ و منشیات ڈال کر اپنی کارکردگی دکھاتے رہیں گے اور ملزمان عدالت سے فائدہ لیتے رہیں گے. یہ انصاف کے ساتھ مذاق کب تک ہوتا رہے گا اور پاکستان جرائم پیشہ و مافیا کی آماجگاہ بنا رہے گا اور عوام کی زندگیاں خطرات سے کھلتی رہے گی۔(انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی)۔۔