Rizwan Abdul Rehman Abdullah

سیاسی اور غیرسیاسی ” عاصم”۔۔

تحریر: رضوان عبدالرحمان عبداللہ۔۔

فرض کرتے ہیں احمد نورانی کی شائع کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں اہلیہ ، بیٹوں اور بھائیوں کے سینکڑوں کاروباری کمپنیوں اورجائیدادوں سے متنازع بننے والے عاصم باجوہ  کے نام کے آگے “جنرل” کا لاحقہ نہ لگا ہوتا ، تو کیا تب بھی یہ احتساب کے عمل سے بالاتر ہوتا ؟

ویسے تو فرض کئے گئے اس عاصم کا تعلق زندگی کے کسی شعبے سے ہوتا تو یقینا موصوف کے لئے حالات ’’خوشگوار‘‘ نہ ہوتے ، لیکن ازراہ تکلف ہم مبینہ اربوں روپے کے اثاثوں سے زبان زد بننے والے عاصم کو ایک ’’کل وقتی‘‘ سیاسی شخصیت تصور کرتے ہیں اور پھر کی گئی اس معمولی ’’ردوبدل‘‘ پرکچھ سوالات رکھ کر ملک میں رائج احتسابی نظام کی ’’وقعت‘‘ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

کیا اس سیاسی عاصم کے مبینہ اثاثوں کی تفصیلات افشاں کرنے والے صحافی کے تانے بانے ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی سے جوڑ کر، اس کا تعارف ملک ، ریاست اور اداروں کے خلاف کام کرنے والے کے طور پر کرایا جاتا ؟ یا اس دوران کوئی سرکاری آفسر اپنے ’’ سیاحتی ایڈونچر ‘‘ کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتا؟کیا سوشل میڈیا پر بھی سیاستدان عاصم کے احتساب کے مطالبات والے تمام ٹرینڈز غداروں اور بھارتی ایجنٹوں کی اختراع قرار دے کر اس کو ملک کے خلاف ایک پروپیگنڈا تصور کیا جاتا ؟

کیا بات بہ بات غُل وغوغاں کے عادی اینکروں ، تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی تحقیقاتی آنکھیں عاصم نامی اس سیاستدان کے ’’کرتوت‘‘ پر چندھیا پاتیں؟ یا  یہ سیاسی شخصیت اتنی خوش قسمت ہوتی کہ جانے مانے ٹاک شوز میں اس کے حضور سہمے سہمے سوالات رکھ کر ان کے جوابات پر’’صدقے‘‘ واری جانے جیسے غیر فطری مناظر ناظرین کو دیکھنے کو ملتے ؟

کیا سیاست سے جڑے عاصم کا دیا گیا تردیدی بیان تمام  نیوز چینلز پر’’خامیوں‘‘ سے پاک نظر آتا ؟ اور ٹی وی چینلز سیاسی عاصم کے ’’برحق‘‘ ہونے کی دہائیاں دیتے نظر آتے؟کیا نیب سیاسی عاصم پر لگے اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات سے کنی کتراتا دکھائی دیتا ؟ کیا سیاسی عاصم کو بھی شواہد اکھٹے کرنے کے غرض سے حراست میں لینے کے عمل کو ناممکنات میں تصور کیا جاتا ؟

کیا برسہابرس قوم کو کرپشن کے مضر اثرات سے ازبر کرانے والے وزیراعظم سیاستدان عاصم کا استعفی مانگنے کی بجائے ’’پیسہ ان کے باپ کا‘‘ قرار دیتے دکھائی دیتے؟کیا کابینہ کے ایجنڈے بھی سیاستدان عاصم کے “احوال” سے خالی ہوتے ؟ اور وزرا اور مشرا کی زبانوں پر اس عاصم کے “اعمال” کے بند بندھے دکھائی دیتے؟ کیا حریف سیاستدانوں  کا رویہ سیاسی عاصم کے لئے ’’مصلحانہ‘‘ ہوتا ؟ اور طویل عرصے کی خاموشی کے بعد جن ’’اکا دکا‘‘ کی زبان کھلتی، اس کے پیچھے کا کارفرما جذبہ ’’کھونے کے لئے کچھ نا ہونا ہونے‘‘ کا نہ ہوتا؟ کیا عدالتیں سیاستدان عاصم کے کیس میں بھی ’’احتیاط‘‘ کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتیں؟ اور ادارہ سیاسی عاصم پر اپنی ’’پرفارمنس‘‘ دکھانے کے لئے ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم جیسے جواز نہ ڈھونڈ پاتیں ؟کیا معاشرے کا باشعور طبقہ کہلانے والی سول سوسائٹی میدان سیاست کے اس عاصم کے خلاف احتساب کے مطالبات والے بینرز اور پوسٹرز آٹھا کر سڑکوں پر آنے سے ہچکچاتیں ؟

قائداعظم کے دستور ساز اسمبلی کے پہلے پالیسی خطاب سے لیکر حالیہ وزیراعظم کے آخری خطاب کو سنیں تو یہ سب رہنما کرپشن کی لعنت سے قوم کو نجات دلانے کا تہیہ تو کرتے نظر آئیں گے ، پر یہ ممکن کیسے ہوگا جب ’’غیر سیاسی عاصم‘‘ جیسے لوگوں کو جوابدہ ہی نہ سمجھا جاتا ہو؟(رضوان عبد الرحمٰن عبد اللہ )۔۔

(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں