علی عمران جونیئر
دوستو،ایک سروے کے مطابق ہردس میں سے چھ پاکستان بہتر مستقبل کیلئے پرامید ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آئندہ دس سال میں ملک بہت ترقی کرے گا،57 فیصد کو اگلے دس سال میں ملک میں بہت زیادہ ترقی کا یقین، 29 فیصد پاکستانی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کیلئے دعاگو، 47 فیصد ناامید ہیں۔ اس بات کا پتہ گیلپ پاکستان کے سروے سے چلا، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد نے ملک بھر سے حصہ لیا۔یہ سروے 3سے 18جنوری 2024 کے درمیان کیا گیا۔ سروے میں 57فیصد پاکستانیوں نے آئندہ دس سال میں ملک میں بہت زیادہ ترقی ہونے کے یقین کا اظہا رکیا ہے۔ البتہ 33فیصد مایوس نظر آئے اور کہا کہ آئندہ دس سال میں کم ترقی ہوگی،10فیصد نے اس سوال کا کوئی جوا ب نہیں دیا۔ گیلپ پاکستان نے عوام سے یہ بھی پوچھا کہ کیا ہماری آنے والی نسل زیادہ خوشحال ہوگی؟جواب میں 29فیصد نے آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے لیے دعا کی اور پرامید دکھائی دیے،البتہ 47فیصد نے ناامید ی کا اظہار کیا اور کہا آنے والی نسلیں کم خوشحال ہوں گی،13فیصد نے کوئی فرق نہیں ہونے کا بتایا کہ جیسے حالات ابھی ہیں مستقبل میں بھی ویسے ہی ہوں گے،11فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب دینے سے گریز کیا۔اتفاق دیکھئے کہ گیلپ والوں نے یہ سروے الیکشن سے بہت پہلے کیا۔ویسے بھی بطور صحافی اب ہمیں کسی سروے پر یقین نہیں رہا، کیوں کہ سروے والوں کی مرضی ہے وہ جو چاہے نتائج دیں، یہ لوگ جنگل کے بادشاہ ہوتے ہیں، انڈا دیں یا بچہ۔۔ یہ ان کی اپنی ”چوائس” ہوتا ہے۔
آٹھ فروری کو ملک بھر میں ”جنرل” الیکشن ہوگئے۔۔اسی حوالے سے ہمیں چیک ادب سے ترجمہ شدہ ایک دلچسپ مگر مختصر کہانی یاد آرہی ہے۔۔کسی جنگل میں ایک خرگوش کی اسامی نکلی۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے بھی اس کیلئے درخواست جمع کرا دی۔اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دے ی گئی۔ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس نا انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف باتیں کیں، سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی، ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کیلئے چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعویٰ دائر کرنے پر پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ۔۔ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا۔۔میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے ارکان چیتے در اصل” گدھے” تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔
الیکشن اور جمہوریت کی خوب صورت تشریح اس واقعہ سے مزید اچھی طرح سمجھ لیں گے ۔۔حاجی شکور کے بڑے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کا جمہوریت سے ایمان 1988 میں ہی اُٹھ گیا تھا جب ہماری اسکول سے چھٹیاں ہوئی تھی تو رات کو کھانے کی میز پر ابو نے پوچھا تھا ،بتاؤ بچو چھٹیوں میں دادا کے گھر جانا ہے یا نانا کے گھر؟؟ تو ہم سب بچوں نے ہم آواز ہو کر نعرہ لگایا دادا کے گھر۔ لیکن امی کا موقف صرف نانا کے گھر تھا۔ چونکہ اکثریت زیادہ تھی اس لیے ابو نے دادا کے گھر جانے کا اعلان کیا۔ ہم دادا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبا کر سو گئے ۔ اگلی صبح امی نے تولیے سے گیلے بال خشک کرتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا سب بچے جلدی جلدی نہا کر کپڑے بدل لو ،ہم نانا کے گھر جا رہے ہیں۔ میں نے حیرت سے منہ پھاڑ کے ابوکی طرف دیکھا تو وہ نظریں چرا کر اخبار پڑھنے کی اداکاری کرنے لگے۔بس میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ جمہوریت میں فیصلے عوام کی اُمنگوں کے مطابق نہیں بلکہ بند کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب عوام سو رہی ہوتی ہے۔۔۔روزانہ ہاسٹل کینٹین میں ناشتے میں کھچڑی کھا کر پریشان طلباء نے ہاسٹل وارڈن سے شکایت کی اور ناشتہ میں دوسری چیز دینے کا مطالبہ کیا۔وہاں 100 میں سے صرف 20 طالب علم ہی ایسے تھے جن کو کھچڑی پسند تھی اور وہ طلباء چاہتے تھے کہ روزانہ کھچڑی ہی بنائی جائے۔ جبکہ باقی کے 80 طلباء تبدیلی چاہتے تھے۔وارڈن نے تمام طلباء کو ناشتے کے لئے ووٹنگ کرنے کو کہا۔اب وہ 20 طلباء جنہیں کھچڑی پسند تھی ان سب نے کھچڑی کے لیے ووٹ دیا۔باقی کے 80 افراد میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔ مزید کوئی بات چیت بھی نہیں تھی اور اپنی عقل اور ضمیر سے کچھ فیصلہ بھی نہیں کیا۔ نہ آپس میں کوئی صلاح مشورہ کیا اور ہر ایک نے اپنی اپنی پسند کے مطابق ووٹ دیا۔ ووٹنگ کا نتیجہ کچھ ایسا آیا ۔20 کھچڑی۔۔ 18 انڈہ پراٹھا ۔۔ 16 پراٹھا چائے ۔۔ 14 روٹی سالن ۔۔ 12روٹی مکھن۔۔ 10 نوڈلزاور دس نے سبزی کے لئے ووٹ دیا۔اب کیا ہوا، اس کینٹن میں آج بھی وہ 80 طلباء ہر روز کھچڑی کھاتے ہیں۔ پاکستان کے انتخابات کچھ ایسی ہی مثال ہے۔۔سیاسی کھچ ڑی پک چکی، اب ہم اور آپ نے اگلے پانچ سال شاید یہی کھانا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر چپل الٹی پڑی ہوئی ہے،اور آپ سکون سے بیٹھے ہیں تو آپ پاکستانی نہیں ہو سکتے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔