تحریر: سید بدرسعید
پیارے سیاست دانوں متعصبانہ گذارش ہے کہ اپنے میڈیا سیلز اور سوشل میڈیا سیلز میں تحقیقی لوگوں کو رکھا کریں ۔ ایسی ایسی پوسٹوں اپ لوڈ کی ہوتی ہیں کہ ترس آنے لگتا ہے ۔ یار ایک کمنٹ میں ہی جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے ، ووٹر بھی ڈس ہارٹ ہوتا ہے اور حامیوں کو بھی شرمندگی ہوتی ہے۔ یہاں تو ہر سیاسی جماعت کے خلاف اتنا مواد موجود ہے کہ کئی سال تک مزید کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ میڈیا سیلز بھرتی کرنے والوں کو خود اندازہ نہیں ہوتا کہ انہیں کرنا کیا ہے ۔ یاد آتا ہے ، ایک بار ایک ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت کو میڈیا اور سوشل میڈیا سیل تیار کرنا تھا ، ایک مشترکہ دوست کے ذریعے درویش سے بھی رابطہ کیا گیا ، دو چار ملاقاتوں کے بعد پارٹی چیئرمین صاحب کے ساتھ نشست کا اہتمام ہوا ۔ صاحب کہنے لگے آپ معاوضہ بہت زیادہ مانگ رہے ہیں اور دفتر میں وقت کم دے رہے ہیں ۔ میں نے کہا سر آپ پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو نتائج چاہیے یا کلرک ، میں دفتر میں تو ایک گھنٹہ ہی دے سکتا ہوں وہ بھی میٹنگز کے لیے ورنہ میڈیا دفاتر میں بیٹھ کر مینج نہیں ہوتا اور سوشل میڈیا وار گیم کے لیے ریسرچ کی ضرورت پڑتی ہے جو دفاتر کی بجائے آرکاءیوز اور لائبریرز میں ہوتی ہے ، مانیٹرنگ کے لیے الگ ٹیم درکار ہو گی ۔ چیئرمین صاحب کہنے لگے : آپ سے پہلے جن صاحب سے میری میٹنگ ہوئی تھی انہوں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا ، وہ دفتر میں آٹھ گھنٹے بھی دیں گے اور معاوضہ بھی کم لیں گے ، میں نے مسکراتے ہوئے کہا : سر آپ انہی کو رکھ لیں ، میں کبھی کبھار آپ سے چائے پینے آیا کروں گا ۔ آپ کو ابھی میڈیا سیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ الیکشن ہارنے کے بعد دوبارہ ملاقات کر لیں گے ، سب دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا کہ کہ اکثر جماعتوں کے میڈیا سیلز اور سوشل میڈیا سیلز کا یہی حال ہے ، اکثر نے کری ایٹیو اور تحقیقی لوگوں کی بجائے کلرک بھرتی کر رکھے ہیں لہذا اکثر کالم نگاروں کے کالموں کا کانٹینٹ بھی پھوکا ہی ہے ، میڈیا سیلز نے مائنڈ سیٹنگ کیا کرنی تھی ، ظالموں نے الٹا اپنے ہی کالم نگاروں کو ایکسپوز کروا دیا ہے (سید بدر سعید)۔۔