siyasat ya sahafat | Faisla Karen

سیاست یا صحافت، فیصلہ کرلیں۔۔

تحریر: رضوان طاہر مبین۔۔

صحافت پڑھنے والوں سے اکثر جس ’سبق‘ کی سب سے زیادہ تکرار کی جاتی ہے، وہ ’معروضیت‘ اور ’غیر جانب داری‘ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیڑھی کھیر ہے کہ اسے سمجھتے سمجھتے ڈگری اور یونیورسٹی کا زمانہ کیا، عمر کا بھی ایک عرصہ گزر جاتا ہے۔ بعضے اساتذہ بتاتے ہیں کہ دراصل ہر ایک کا منظر دیکھنے کا زاویہ الگ ہوتا ہے، کیوں کہ ہم سب اپنی اپنی ذہنی قابلیت اور بساط کے مطابق کسی بھی چیز کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ سے ایک ہی منظر کے مختلف زاویے بھی سامنے آتے ہیں۔ لیکن اس تمام تربیت کا ایک مقصد ہوتا ہے کہ کسی بھی واقعے کے بیان یا تجزیے کے وقت خبر اور منظرنامے کے تمام پہلو کھل کر سامنے آجائیں اور اپنی ذاتی پسند وناپسند اور جانب داری کو بالکل ایک طرف رکھ دیا جائے۔ یہ اتنا زیادہ آسان مرحلہ نہیں ہوتا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا کہ آپ کاغذ، قلم یا مائیک اور کیمرا چھوڑ کر جھٹ کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے ساتھ ایسے جا کر کھڑے ہو جائیں کہ پھر صحافی نہیں بلکہ پورے ’سیاسی کارکن‘ دکھائی دیں۔۔!

ہمیں یہ سب کہنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اِن دنوں مختلف صحافی، ٹی وی میزبان اور نام نہاد تجزیہ کار براہ راست ’جانب داری‘ کی دِشا میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ شاید انھیں یاد ہی نہیں رہا ہے کہ وہ ایک صحافی ہیں۔ نہ کہ ’حزبِ اقتدار‘ یا ’حزبِ اختلاف‘ کے بھاڑے پر اٹھائے گئے ٹٹو! جیسے اندھے سیاسی عقیدت مند اپنے راہ بر میں دنیا جہاں کی خوبیاں دیکھ رہا ہوتا ہے، ویسے ہی یہ سارے نام نہاد صحافی گھما پھرا کر اور کبھی بہت بھونڈے انداز میں اپنے سیاست دان یا حکم راں کی تعریف اور مخالف سیاست دان پر تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں قارئین، ناظرین اور سامعین اب حقائق کی جان کاری اور متوازن تجزیے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ خبریں کم اور پروپیگنڈے کا زیادہ زور دکھائی دینے لگا ہے۔ ہمارے لک کے دو بڑے میڈیا گروپ شد ومد سے اپنی اپنی طرف داریوں میں اپنے ہی قائم کردہ پچھلے ریکارڈ توڑ چکے ہیں اور اپنی حمایت کے جواب میں انھیں متعلقہ سیاست دانوں کی طرف سے باقاعدہ تعریف وتوصیف بھی موصول ہو رہی ہے۔ عوام اس بدترین پروپیگنڈے پر عجیب مخمصے کا شکار ہیں، کیوں کہ انھیں ہر طرف فرشتے دکھائی دیتے ہیں یا پھر شیطان۔ کیوںکہ تجزیہ کاروں کے سامنے ان کا سیاسی قائد اور سربراہ بہترین ہے، اس کے اسکینڈل، جرائم اور غلطیاں جھوٹ اور بے معنی ہیں، جب کہ مخالف غدار، جھوٹا اور بدعنوان ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی اعتدال کی راہ کھو چکے ہیں۔ حقیقت پسندی سے تجزیہ کیا جائے تو دونوں جانب کافی جھول موجود ہے۔ ’حزب اقتدار‘ اور ’حزب اختلاف‘ دونوں ہی کو ایک متوازن تجزیے اور باقاعدہ احتساب کی ضرورت ہے۔ دونوں ہی سے سوالات پوچھے جانے چاہئیں اور اس کی جواب طلبی ہونی چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ۔ بڑے بڑے جغادر صحافی شدید جانب داری کا شکار ہیں اور وہ تجزیہ کم اور ترجمانی زیادہ کر رہے ہیں۔ صرف ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ہی نہیں، سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے خبریں یا تجزیہ کرنے کی جو بھونڈی کوششیں ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ پست ہیں، جس میں وہ براہ راست کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے طرف دار دکھائی دیتے ہیں، نتیجتاً اس سیاسی جماعت کے حامیوں کی جانب سے انھیں جی بھر کے پذیرائی ملتی ہے، جب کہ مخالف سیاسی فکر کے کارکنان انھیں مطعون کرتے ہیں۔ جب کہ اسی طرح دوسری جانب ایک طرف والے واہ واہ کرتے ہیں اور دوسری طرف والے بالکل اسی طرح رکیک حملے کرتے ہیں۔ آخر میں صحافت بدنام ہوتی ہے اور ہو رہی ہے۔

چلیے ’سوشل میڈیا‘ میں تو بطور عام شہری آپ اپنی ذاتی رائے اور پسند وناپسند ظاہر کر سکتے ہیں، لیکن صحافتی ذمہ داریوں میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی۔ وہاں آپ کا امتحان ہوتا ہے کہ کس طرح آپ نے اپنی پسند وناپسند کو ایک طرف رکھنا ہے۔ کیا آج اِن بڑے بڑے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ آپ کا کام بھی سیاست میں مداخلت کرنا یا کسی سیاسی جلسے جلوس کا حصہ بننا ہرگز نہیں ہے، بلکہ صرف حقائق کو پیش کرنا ہے، چاہے وہ حقائق ذاتی طور پر آپ کو کس قدر ناپسند ہی کیوں نہ ہوں! لیکن چوں کہ اب سیاست دان اِبلاغی ادارے خریدنے بھی لگے ہیں، تو سورج مکھی کی طرح ان کا چینل بھی اپنا موقف گھماتا رہتا ہے۔ رہے بھانت بھانت کے تجزیہ کار، تو وہ بھی بس تصویر کا ایک ہی رخ دکھاتے ہیں، ایک ہی طرف ساری تنقید ہوتی ہے، ایک ہی طرف کی غلطیاں، جرائم اور غفلتیں دکھائی جاتی ہیں۔ اور یہ سب اتنے بھونڈے اور بھرپور طریقے سے ہو رہا ہے کہ سب بھول بیٹھے ہیں کہ صحافت میں ’معروضیت‘ اور ’غیر جانب داری‘ کس چڑیا کا نام ہوتا ہے۔

چلتے چلتے بطور ایک طالب علم صحافی کے ہماری تجویز ہے کہ اگر ایسے نام نہاد صحافیوں کو واقعی ’سیاست‘ کا شوق چرایا ہے، تو یہ زیادہ اچھا ہوگا کہ وہ باقاعدہ اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلیں اور پھر کھل کر ان کا موقف جلسے جلسوں میں پیش کرتے رہیں، یہ ہماری صحافت پر ان کا ایک احسان عظیم ہوگا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں