تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ویسے ہماری کوشش تو بہت ہوتی ہے کہ ہماری تحریریں غیرسیاسی ہوں۔۔ احباب اکثر شکایات کا ڈھیر بھی لگادیتے ہیں کہ آپ سیاست پر بھی کبھی کبھار طبع آزمائی کیا کریں۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب سے ہم نے لکھنے کی عادت ڈالی ہے ،ہم نے دو باتیں ذہن میں اچھے طریقے سے نقش کرلیں کہ کبھی بھی سیاست اور مذہب پر نہیں لکھیں گے۔۔ کیوں کہ یہ دونوں معاملات ایسے ہیں کہ جن پر کچھ بھی لکھ ڈالیں، چاہے تحریر آپ نے خون جگر سے ہی کیوں نہ لکھی ہو، لوگ آپ سے اختلاف ضرور کریں گے۔۔ آپ کی تحریر میں کیڑیں نکالیں گے۔۔ آپ پر طنز کریں گے۔۔ آپ تنقید کا نشانہ بنیں گے۔۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب کراچی میں حالات خراب تھے اور شاید اردو بولنے والوںیعنی مہاجروں اور پختون(پشتو اسپیکنگ) کی آپس میں بنتی نہیں تھی، ان دنوں ہم ایک اخبار میں اسی طرح اوٹ پٹانگ کالم لکھاکرتے تھے، ان دنوں جب کہ حالات شدید خراب تھے، ہمارا ایک کالم ’’ٹیڑھے نام‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، جس میں ہم نے مذاق مذاق میں بتایاتھا کہ پختونوں میں نام کس طرح سے رکھے جاتے ہیں، جیسا کہ جنگ کے دنوں میں پیدا ہونے والے بچے کا نام بارود خان، سیلاب کے دنوں میں سیلاب خان۔۔ بہار کے موسم میں گلاب خان۔۔ کھانے کے دوران پیدا ہونے والے بچے کا نام ’’دسترخان‘‘ دوران سفر بس میں پیدا ہونے والے بچے کا نام’’نیوخان‘‘ رکھا جاتا ہے۔۔ یقین کریںہم خود بھی پٹھان ہیں،لیکن پختونوں کی ایک جماعت نے اخبار کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا، اخبار کے مالک نے ان کے لیڈران سے معافی مانگی، لیکن سلام ہے انہیں کہ ہمیں انہوں نے کوئی روک ٹوک نہیں کی اور نہ ہی کوئی پابندی لگائی۔۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔بھارت اور پاکستان کا ساس بہو کا رشتہ ہے، ساتھ گزارہ بھی نہیں، ایک دوسرے سے چھٹکارا بھی نہیں۔۔بنگلہ دیش وہ نند ہے جسے ساس نے شادی کر کے علیحدہ کر دیا۔ افغانستان دیور ہے جو گھر میں رہتا ہے کھاتا پیتا ہے اور طنطنہ بھی دکھاتا رہتا ہے، کھا پی کے۔۔ایران جیٹھ ہے جس سے کبھی بنتی ہے کبھی بگڑ جاتی ہے۔۔امریکا پھوپھو ہے، جو ہر معاملہ بگاڑ کے، سدھارنے کا شور مچاتی رہتی ہے۔۔شرق وسطی والے وہ نکُڑ کے دکاندار ہیں جن کے ہاں دیہاڑی لگانے کی اجرت کے ساتھ ہمیں ادھار اور بخشش بھی ملتی ہے۔۔اور ہم خود ایسی نک چڑھی بہو ہیں جس کے نخرے ہی نہیں ملتے چاہے گھر میں کھانے کو بھی نہ ہو، لیکن ہر کام میں پنگا ضروری ہے۔۔ میاں بیوی کے درمیان جب شدید قسم کا جھگڑا ہوا تواس دوران شوہر کے منہ سے ایک ایسا جملہ نکل گیا کہ۔۔سارا جھگڑا ہی یکلخت ختم ہوگیا۔۔شوہر نے غصے میں اچانک کہہ دیا کہ۔۔ خوب صورت ہوتو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو چاہے بول دو۔۔اس کے بعد بیوی نے کچھ کہاہی نہیں بلکہ چائے کے ساتھ پکوڑے بھی بناکر شوہرکے سامنے بڑی محبت سے پیش کیے۔۔اسی لیے کہتے ہیں کہ ۔۔ہمیںبیماری سے لڑنا ہے، بیمار سے نہیں۔۔پرانے وقتوں کے لوگ بہت سادہ ہوا کرتے تھے۔۔ تاریخ پو چھنے کے لیے بھی محلے کے کسی بزرگ میاں جی کے پاس جایا کرتے تھے۔۔ کلینڈر نہیں ہوتے تھے۔ بس میاں جی نے جو تاریخ کہہ دی مان لیتے ۔۔میاں جی کے پاس کونسا کمپیوٹر، موبائل یا کلینڈر تھا بلکہ ایک سادہ ایجاد تھی۔۔میاں جی باقاعدگی سے چاند دیکھتے اور روزانہ اپنے حجرے میں رکھے ہوئے لوٹے میں اپنی بکری کی مینگنی ڈال دیتے جب کوئی تاریخ پو چھنے آتا لوٹا الٹتے مینگنیاں گن کر۔۔باہر جاکر تاریخ بتا دیتے۔۔ایک مرتبہ میاں جی کی بکری حجرے میں داخل ہوئی اور اس نے براہ راست لوٹے کے اوپر مینگنیاں کردیں۔۔اگلے دن کوئی تاریخ پوچھنے آیا۔۔ میاں جی حجرے میں گئے اور لوٹا الٹا تو حیران ہوگئے۔۔ لوٹا تو منہ تک بھرا ہوا تھا مجبورا گنتی شروع کی آدھے گھنٹے بعد جب گنتی پوری ہوئی تو پسینے سے شرابور میاں جی باہر نکلے تو سائل نے کہا۔۔ جی میاں جی کیا تاریخ ہے؟؟میاں جی بولے بیٹا آج 80 تاریخ ہے۔۔سائل حیران ہو کے کہنے لگا۔۔ میاں جی خدا کا خوف کھائیں 80 بھی تاریخ ہوتی ہے۔۔میاں جی بولے۔۔ برخوردار، خدا کا خوف کھا کر ہی 80 بتارہا ہوں ورنہ لوٹے کے مطابق تو آج 280 تاریخ ہے۔۔ ایک بندہ باہر سے واپس آیا تو دیکھا کہ ۔۔ گھر میں نوکر چاکر گاڑیوں کی ریل پیل لگی ہوئی ہے، ہر طرف خوشحالی۔۔ ہر کمرے میں اے سی چل رہاہے۔۔وہ بڑا حیران ہواکہ۔۔ جتنے پیسے میں بھیجتا ان میں یہ سب تو نہیں ہوسکتا جب حساب کیا تو پتہ لگاکہ 40 لاکھ سال کا بھیجتا جبکہ گھر والے 60 لاکھ خرچ کرتے۔۔پوچھا۔ باقی 20 لاکھ کہاں سے آتا تو پتہ لگا وہ قرض لیتے تھے جس سے قرض 100 لاکھ چڑھ گیا۔ بندہ بہت پریشان ہوا اور سوچا اس کو ٹھیک کرنا ہے۔بھائیوں نے بتایا کہ۔۔ فوری 10 لاکھ قرض کی قسط بھی واپس دینی ہے اور 20 لاکھ اضافی خرچ والا بھی چاہیے۔۔اپنا اکاؤنٹ دیکھا تو اس میں صرف 9 لاکھ تھے ۔۔مرتا کیا نا کرتا بیچارے نے دوستوں سے فوری ادھار مانگا تاکہ قسط بھی اتارے اور اضافی خرچ بھی پورا کرے۔۔پھر اس نے فالتو نوکر نکالنے کا سوچا تو پتہ لگا ان سے تو کئی سال کا معاہدہ ہے کام کریں نا کریں تنخواہ دینی ہوگی۔۔بجلی کا پتہ لگا کہ ۔۔ کئی ماہ بل نا جمع کروانے سے 12 لاکھ تک چڑھ چکا۔خیر بڑی زور زبردستی اور گھر والوں کی ناراضگی مول لیکر پہلے سال اس نے 60 لاکھ سے خرچہ کم کرکے 53 لاکھ کیا لیکن ابھی بھی آمدن سے 13 لاکھ کا فرق تھا لہذا مزید قرض لیکر فرق ادا کیا اور مزید سختی شروع کردی جس سے دوسرے سال خرچ اپنی کمائی کے قریب 44 لاکھ پر لے آیا۔۔اب ساری کوشش یہ ہے کہ اپنی آمدن 40 لاکھ سے بڑھائے تاکہ گھر والوں پر سختی کم ہو اور حالات بہتر ہوں۔ گھر والے کہتے ہیں تمہارے آنے سے پہلے سب اچھا بھلا چل رہا تھا تم نے تو ہماری زندگی عذاب کردی۔۔واقعہ کی دُم: یہ قطعی غیرسیاسی معاملہ ہے اسے موجودہ حالات سے ہرگزہرگز نہ جوڑا جائے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سب کو سچ بولنے کی آزادی ہے مگر ایسا کرنے کے بعد کی آزادی ایک الگ مسئلہ ہے۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔