تحریر: مظہر عباس۔۔
لگتا ہے نہ کوئی’’سیاسی سیل‘‘ بند ہوانہ سیکریٹ فنڈ جو منفی رجحانات، سیاست میں پائے جا رہے تھے اب اس کی لپیٹ میں صحافت بھی آ گئی ہے۔ خود صحافیوں کا سیاست کرنے اور حکومت میں آنے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ساتھی اپنی پروفائل میں یہ لکھتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے کہ ان کے تجربے میں اتنی خبریں، بریکنگ نیوز، کالم اور پروگرام ہیں اب اس میں سرکاری نوکری، وزارت، وزارت اعلیٰ بھی شامل ہو گئی ہے لہٰذا جب یہ خبر سوشل میڈیا پر چلی کہ کسی صحافی کا نام وزارت عظمیٰ کیلئے زیرغور ہے تو تعجب نہیں ہوا۔ تھا ایک زمانہ جب ہم ریاست کا چوتھا ستون اور معاشرے کے لئے آئینے کا کام کرتے تھے آج اس میں اپنا ہی عکس نظر آتا ہے۔ چلیں دیکھتے ہیں آئندہ ماہ نگران حکومت میں وفاق اور صوبوں میں کس کس کی پروفائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
کہتے ہیں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا اپنا اپنا ایک رجسٹر ہوتا ہے جس میں ان کے مطابق پسندیدہ اور نا پسندیدہ (ریاست کی نظر میں) شخصیات کا ذکر ہوتا ہے کہ یہ معزز ہیں اور ان کے بارے میں یہ رائے پائی جاتی ہے لہٰذا جب کبھی کوئی نگران سیٹ اپ بننے جا رہا ہوتا ہے تو یہ رجسٹر کھل جاتاہے۔ اب اگر معاشرے کی نظرمیں معزز ہیں تو ضروری نہیں ریاست کی نظر میں بھی ہوں ،عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے یہ تمہید اس لئے ضروری تھی کہ ایک بار پھر نگران حکومت کا موسم آ گیا ہے۔ انٹرویوز بھی ہو رہےہیں اور رپورٹس بھی منگوائی جا رہی ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختوانخوااس میں بھی بازی لے گئے کیونکہ وہاں تو ابھی یہ سیٹ اپ مزید تین ماہ تک چلتا رہے گا ایسے میں اگر مرکز، سندھ اور بلوچستان سے یہ آوازیں آنا شروع ہو گئیں کہ ہمیں بھی زیادہ وقت دیا جائے توکیا ہو گا۔ احساس محرومی توکبھی بھی جاگ سکتا ہے۔
یہ سیاسی موسم نئی سیاسی فصلوں کا بھی ہے نئی جماعتیں، گروپس ، توڑ پھوڑ جماعتوں میں نظر آنے لگی ہے اور ظاہر ہے ہر کام قومی مفاد میں ہوتاہے ورنہ تو نظریہ پاکستان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے لہٰذا جب نگراں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اور صوبائی نگراں کے نام اور ان کا پروگرام سامنے آئے گا تو اندازہ ہو جائے گا سرِ آئینہ اور پس آئینہ کا۔ کچھ کا خیال ہے کہ ماہر معاشیات کی ٹیم ہو گی۔ بیوروکریٹ وزیر اعظم ہو گا یاپھر کوئی معمر سیاستدان۔بہرحال جو بھی ہو گا وہ ریاست کی لسٹ میں پسندیدہ ہی ہو گا۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد 2008میں الیکشن ہوئے تو امید تھی کہ سیاستدان اور نگران تاریخ سے سبق سیکھیں گے، اعلیٰ عدلیہ ایک انتہائی متاثرکن تحریک کے بعد اپنے آپ کو آزاد اور خود مختار کر پائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ آئین کے آرٹیکل 184-3نے جنرل ضیاء کے 58-2(B) کے متبادل کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ جس طرح صحافیوں کو سیاست رپورٹ کرنے کے بجائے سیاست کرنے کاشوق پیدا ہوا اس نے پورے نظام کو ہلا کررکھ دیا ۔ پچھلے15سال میں 6وزیر اعظم بنےچلو پھر بھی کم از کم یہ تاریخ رقم ہوئی کہ حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پور ی کی اور پر امن انتقالِ اقتدارکی جھلک 2013 اور 2018میں نظر آئی مگر پھر بھی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا کوئی حکومت بھی اچھی گورننس کی مثال قائم نہ کر سکی۔
خیر موجودہ حکومت کی رخصتی کا اعلان ہو چکا اور یہ اعلان دولہا نے خود کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور پی ڈی ایم کی حکومت نے 15 ماہ میں وہ مدت پوری کی جو دراصل سابق وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کی تھی جو 10اپریل 2022کو عدم اعتمادکی تحریک منظور ہونے کی وجہ سے ختم ہوئی۔ ’’عمرمیری تھی مگر اِس کو بسر اُس نے کیا۔‘‘ اب جنرل باجوہ کو شایدخاں صاحب سے یہ شکایت رہے کہ’’ شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا …پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا۔‘‘ کل تک ایک دوسرے کے قصیدے پڑھنے والے آمنے سامنے آئے تو اس وقت کی اپوزیشن پی ڈی ایم اور پی پی پی نے ان سارے گروپس کو گلے لگا لیا جو 2018سے 2022تک کپتان کے گن گاتے تھے یوں ا یک نئی حکومت کی سربراہی مسٹر اسپیڈ کے حوالے کی گئی مگر ان کے دور میں سب سے زیادہ اسپیڈ کامقابلہ ڈالر اور مہنگائی کے درمیان رہا ۔رہی سہی کسر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پوری کر دی۔ اب آئی ایم ایف سے معاہدے میں گو کہ بڑا کریڈٹ خود وزیر اعظم کو جاتاہے مگر سعودی عرب ،یو اے ای اور دیگر ذرائع سے امداد لانے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو وہ پورا کریڈٹ دیتے ہیں۔
اب الیکشن کب ہونگے تو وزیر اعظم نو مبر بتا رہے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا ۔اب اللہ خیرکرے وہ اعلان ویسا ہی نا ہو جیسا کہ پنجاب اور کے پی میں ہوا۔ الیکشن کیسےہونگے تو میرے عزیز ہم وطنوآپ اطمینان رکھیں کہ یہ ویسے ہی ہو نگے جیسا کہ ماضی میں ہوتےآئےہیں شاید تھوڑی بہت تبدیلی کرنی پڑے طریقہ کار میں ،ورنہ تو ایک پٹیشن ہی تو فائل کرنے کی ضرورت ہے یا کسی پرانی درخواست کو سماعت کیلئے مقرر کر دیا جائے مثلاً مردم شماری پر نئی اور پرانی بحث، تو ’’انتظار فرمایئے‘‘ نئی نگران حکومت کا۔ ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ کپتان اور ان کی ٹیم کا کیا بنے گا شہباز حکومت اور ان کے ساتھی تمام تر کوششوں اور حربوں کے باوجود نہ ان کو جیل میں ڈال سکے نہ سزا دلوا سکے نہ ہی نااہل قرار کروا سکے۔ ایسے میں کیا نگران حکومت ایساکر پائےگی اس کا دارو مدار نگرانی کرنیوالوں پر ہے۔ اب اس 15ماہ کی حکومت کا کیا کہیں، وہ تو خود اپنے لیڈر اور تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف کوہی قائل نہ کر سکی کہ وہ مضبوط ہیں ،یہ کام بھی نگران کے حوالے کر دیا گیا۔ ایسے میں اگر نگران حکومت یا وزیر اعظم موجود حکمران اتحاد کی منشا یا مرضی کا نہ آیا تومعاملات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں پھر شاید تمام انتخابی اصلاحات، نیب ترامیم وغیرہ وغیرہ دھری رہ جائیں اور ہمیں ایک نیا منظر نامہ دیکھنے کوملے۔ کہانی ابھی باقی ہے میرے دوست میں نے کہا نا کہ ابھی نہ سیاسی سیل ختم ہوا ہے نہ ہی سیکریٹ فنڈ، رہ گئی بات 1973 کے آئین کی تو وہ 50 سال سے لا پتہ ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔