تحریر: ناصر جمال
میرے سابقہ ایڈیٹر (ایکسپریس) فاروق فیصل خان کا ایک عرصہ سے کہنا ہے کہ ’’صحافت‘‘ صرف اور صرف میڈیا مالکان کے کاروباری مفادات کے تابع ہے۔ ’’توپ صحافی‘‘ اس کے ’’ہٹ مین‘‘ ہیں۔ یہ توپ صحافی کتنی آزادانہ صحافت کرتے ہیں۔ محترم کاشف عباسی کی مطیع اللہ جان کے ساتھ گفتگو میں ’’ نیچی نگاہوں‘‘ نے سب بے لباس کر دیا ہے۔فاروق فیصل خان صاحب کا یہ تبصرہ میں ابھی انجوائے ہی کررہا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا کہ مُفتاح اسماعیل کے ’’پراپرٹی ٹائیکون‘‘ ملک ریاض کے بارے میں الفاظ قومی میڈیا نے حذف کردیئے۔ وہ غالباً ملک ریاض کے 192ملین پائونڈ کا ’’ناپسندیدہ‘‘ ذکر کربیٹھے تھے۔یہ ہے ہماری ’’مالکان‘‘ کی غلامی کی بیڑیوں میں جکڑی صحافت، باتیں بڑی، بڑی کی جاتی ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم نے ’’ارشاد بھٹی‘‘ جیسوں کو بھی صحافت کی معتبر سندیں، عطا کی ہوئی ہیں۔ ہر صحافی کا سفر، انتہائی کٹھن اور دشوار ہوتا ہے۔ مگر جن کا سفر ہاشوانی کی گود سے شروع ہوکر، سپلائی لائن تک کا ہو۔ آج وہی صحافی ہیں، سینئر صحافی کہلانے کے اصل حقدار بھی وہی ہیں۔ جو لکھی ہوئی پرچیاں پڑھ رہے ہیں۔ وہ ہی انقلابی صحافی ہیں۔ انہوں نے فیلڈ میں زندگی گزار دی، شکیل کرے انہوں نے جھک ماری ہے۔
یہ ہوتے ہیں صحافت کے اصل علمبردار، صحافت ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ویسے مفتاح اسماعیل کچھ زیادہ ہی بول گئے ہیں۔چوہدری نثار علی خان یاد آئے۔ بہت برہم تھے۔ کہنے لگے۔ میں ملک ریاض کو نشان عبرت بنا دوں گا۔ طارق سمیر اور سید سعود ساحر مرحوم کی موجودگی میں راقم نے انھیں مسکراتے ہوئے کہا کہ ، آپ انھیں نشان عبرت بنانے کی باتے کررہے ہیں۔ پہلے پتا تو کرلیں۔ اس وقت ملک ریاض پنجاب ہائوس میں کس کے پاس بیٹھے ہیں۔لیڈر آف دی اپوزیشن نے فون اٹھایا۔ انھیں لگ پتا گیا کہ ملک ریاض وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ نثار علی خان، وزیر داخلہ بنے۔ انھوں نے، ملک ریاض کو ٹف ٹائم بھی دیا۔اس ٹف ٹائم سے، ملک ریاض کے کراچی میں نصیب کھُل گئے۔ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ ملک ریاض کے لئے عمران خان بھی سب کچھ کرنے کو تیار رہتے اور کیا بھی۔ آصف زردری، رحمٰن ملک بھی، اُن کے خادم تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ مُفتا، اسماعیل، ”جبان“ پھسلنے پر معافی مانگ ہی لیں۔
اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ملک ریاض تو بہت بڑی ’’فلم‘‘ ہے۔ یہاں تو آپ کسی بھی ’’ٹائیکون‘‘ کی طرف نہیں دیکھ سکتے۔ وہ پراپرٹی ٹائیکون ہو یا کہ بزنس ٹائیکون، آج جس کے پاس طاقت ہے۔ پیسہ ہے۔ تعلق ہے۔ اور تھوڑی سی عقل ہے تو پھر وہ ’’ان ٹچ ایبل‘‘ ہے۔ اور اگر اس کے ’’ڈیپارٹمنٹ‘‘ سے اچھی سلام دُعا ہے تو پھر ’’ستیں خیراں‘‘ہیں۔
سیاست اور صحافت‘‘ اس ملک سے فارغ ہوچکے ہیں۔ دونوں شعبوں پر سیٹھوں اور ان کے حواریوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان،ضیاء الدین صاحب والی نسل متروک ہی نہیں بلکہ ڈائنوسار کی طرح معدوم ہوچکی ہے۔اب تو آج کی سیاست میں آج کے سیاستدان اور صحافت میں ہمارے جیسے ہی بچے ہیں۔ ہمت ہے اس قوم کی جو ہم جیسے لوگوں کو برداشت کررہی ہے۔ بلکہ اُن سے متاثر بھی ہے۔
سیاست اور صحافت میں ایک طوفان بدتمیزی اور بدتہذیبی مچا ہوا ہے۔ ہر طرف سطحی گفتگو ہورہی ہے۔ جنہیں ایک لائن نہیں لکھنی آتی۔ ان کے ملک کے صف اول کے اخبارات میں کالم چھپ رہے ہیں۔ انہیں یہ نہیں پتا کہ خبر کیا ہوتی ہے۔ ان کی بائی لائن فرنٹ پیج پر خبریں چھپ رہی ہیں۔ ایڈیٹر لیول کے لوگ ملک ریاض کا نام ایسے لکھتے ہیں جیسے وہ ولیِ کامل اور خواجہ خواجگان ہوں۔منٹو ہوتے تو ان کے لیے طوائف سے بھی کوئی بڑا لفظ ایجاد کرتے۔میرے خیال میں سیاست اور صحافت پر شاید ہی کبھی اتنا بُرا وقت آیا ہو۔ جو کہ آج کل آیا ہوا ہے۔
میں ایک سیاہ فام مقرر کا لیکچر دیکھ رہا تھا۔ اس کا نکتہ تھا کہ سیاستدان، لیڈر نہیں ہوتا۔ لیڈر سات نسلوں کا سوچتا ہے۔ سیاستدان، چار سے پانچ سال کا سوچتا ہے۔ سیاستدان، سڑک، پل، پروجیکٹ کی بات کرتا ہے۔ لیڈر، اُس سے بہت آگے کی بات کرتا ہے۔ اگر سیاستدان سے صرف یہ پوچھ لیں کہ اس نے ہماری نسل کے بارے میں کیا سوچا ہے تو وہاں سے بھاگ جائے گا۔
پاکستان میں ’’بونافائیڈ‘‘ صحافیوں نے بڑی قربانیاں دیں ہیں۔ مگر وہ ایڈیٹر نام کا ادارہ نہیں بچا سکے۔ اُس کے بعد الیکٹرانک میڈیا سے دوری نے انھیں بہت نقصان پہنچایا۔ جب انھوں نے الیکٹرونک میڈیا کی جانب واپسی کرنا چاہی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ وہاں پر پیراشوٹرز کا قبضہ ہوچکا تھا۔ ’’جن اور پیراشوٹرز“ کب آسانی سے قبضہ چھوڑتا ہے۔ جبکہ اُس کے پاس پیسہ بھی ہو۔ تعلقات ایجنڈا اور وسیع فنڈز بھی ہوں۔ اس فیلڈ میں پروفیشنل مالکان کی بجائے، خالص کاروبارئیے آبیٹھےہیں۔
تو کیا ہوگا۔ یہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے۔ اس کی سرمایہ کاری پر بہترین منافع دینا ہوگا۔ ذاتی کام،حکومتی اشتہارات اور کاروباری میڈیا، جو اُن کے لئے لیکر آئے گا، وہی اگے جائے گا۔ ’’خبر‘‘ کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔ ’’خبر‘‘ تو میڈیا مالکان ’’تھریٹ‘‘ کے طور پر رکھتے ہیں۔ اس لئے، ’’خبر‘‘ والے صحافیوں کو باامر مجبوری قبول کیا جاتا ہے۔ ہاں، اگر ان کی ذات یا مفادات کو خطرہ پڑے تو پھر ’’خبر‘‘ والے صحافی میں یہ اتنی پھونک بھرتے ہیں کہ وہ بیچارہ پگلا جاتاہے۔ اور مالکان کی حفاظت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ پھر جب مالکان کی میٹنگ ہوجاتی ہے تو وہ ’’عامل صحافی‘‘ کو پرانی تنخواہ پر لےآتا ہے۔ بلکہ یہ کہیں، ”اوقات“ میں لے آتا ہے۔
اخبارات کیوں پٹ گئے ہیں۔ کیونکہ 99فیصد، وہاں خبر چھپتی ہی نہیں ہے۔ جبکہ اب تو 95فیصد صحافی، ’’خبر‘‘ نامی چڑیا سے ہی نابلد ہیں۔ ٹیکر صحافی ہیں۔ آج روٹین کی خبر پہلے دینے پر نوزائیدہ صحافی سینہ پُھلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی۔ وی پر تو اس سے بھی برا حال ہے۔ اس وقت صحافت صحیح معنوں میں تماش بینوں میں گھری ہوئی ہے۔ مارکیٹنگ کے بندے کے سامنے، عامل صحافی کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔ عامل صحافی، بطور خاص رپورٹر کو تو ادارے میں ’’سوتیلا بیٹا‘‘ بلکہ ’’یتیم لڑکا‘‘ سمجھا جاتا ہے۔کی اداروں میں عامل صحافیوں کو صرف دو بار چائے ملتی ہے۔جبکہ مارکیٹنگ والوں کے پاس انٹرٹینمنٹ کی مد میں ایک وسیع بجٹ ہر وقت ہوتا ہے۔میں کسی اخبار میں ایڈیٹر گیا۔میں نے تمام شعبوں کو بلا کر کہا کہ آپ لوگوں کو صحافیوں کی مدد کے لیے رکھا گیا ہے۔صحافی اس ادارے کے ”سید“ ہیں۔میرے صحافی دوستوں نے کہا کہ یقین نہیں آتا کہ ادارے میں صحافی کی عزت بحال ہوئی ہے۔ہمیں تو ان لوگوں نے ادارے میں شودر بنا کر رکھا ہوا تھا۔
اس لئے، ٹی۔ وی نامی ڈبہ بھی آپ فارغ ہی سمجھیں۔ اگلی دنیا، ’’ڈیجیٹل نیوز‘‘ کی ہے۔ وہاں پر معتبریت کا مسئلہ، آہستہ، آہستہ حل ہورہا ہے۔ مختلف نیوز ویب سائیٹس کی ’’کریڈبیلٹی‘‘ بنتی جارہی ہے۔ وہاں پر خبری مواد(news content) اپنی جگہ خوب بنا رہا ہے۔ دوسرے معنوں میں ’’ڈیجیٹل میڈیا‘‘ سوشل میڈیا پر سب کو بہت جلد کھا جائے گا۔ وہ اپنی جگہ صرف ملک ہی نہیں، پوری دنیا میں بنا رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ مستقبل قریب میں جنگ اور ڈان گروپ ہی شاید، خود کو آگے لیکر جاسکیں گے۔ الحمد اللہ، نسل در نسل اور بیمار نسل کے تمام گروپس، فارغ ہونے جارہے ہیں۔ شنید ہے کہ میر شکیل الرحمان نے ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، لمبا چوڑا، نیا شعبہ قائم کر دیا ہے۔ جس کی وہ مرحلہ وار توسیع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ڈان گروپ نے اس پر کام کیا تھا۔ پھر اس کو پیچھے کر دیا ۔ اگر اُس نے اس شعبہ کو ایسے ہی نظر انداز کررکھا تو، وہ بھی شدید مشکلا ت کا شکار ہوگا۔
بطور خاص گزشتہ 23سال میں میڈیا مالکان نے اپنے تمام اصولوں اور اصولوں پر چلنے والے صحافیوں سے کمال طریقے سے بتدریج اپنی جان چھڑوالی۔ جبکہ گذشتہ 20سالوں میں انھوں نے اینکر شپ کو ہی صحافت سمجھ لیا۔ جبکہ آجکل یہ صورتحال ہے کہ بڑے، بڑے اینکر پروگرام کرررہے ہوتے ہیں۔ جبکہ اس وقت ٹی۔ وی بغیر آواز کے چل رہے ہوتے ہیں۔ یہ حال میں نے حامد میر کے پروگرام میں، جنگ، جیو کے دفاتر تک میں دیکھا ہے۔ کچھ لوگ ابھی بھی، ان پروگراموں کے اسیر ہیں۔ عوام کی اکثریت بے زار ہوچکی ہے۔ بریکینگ نیوز پر ٹیکرز کے بعد فیصلہ ہوتا ہے۔ کہ خبر سننی بھی کہ نہیں۔ آج کل ڈیجیٹل میڈیا پر کام کے کلپ البتہ ضرور وائرل ہوتے ہیں۔ جس کے پاس خبر ہے۔ اس کے پروگرام کا وہی حصہ بکتا ہے۔ اگر کوئی بڑا ایشو آجائے تو لائیو ٹرانسمیشن ضرور بکتی ہے۔
میڈیا مالکان کے” ہٹ مین“ صحافی، مستقبل قریب میں اپنے مالکان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہونگے۔ وہ ڈیجیٹل میڈیا کے سمندر میں چھلانگ ضرور لگائیں گے۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ قدرت ہر بار انھی کو موقع دے۔
قارئین۔۔سیاست اور صحافت بے نقاب ہوچکی ہے۔صرف خبر اور بہترین خبری مواد،اچھا کالم، ریسرچ بیس اسٹوری، پر غیرجانبدارانہ جاندار تجزیہ ہی بچے گا۔ اس میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔ الٹی گنتی شروع ہے۔ اگر آپ کو ٹک، ٹاک کی آواز نہیں سنائی دے رہی تو اور زیادہ ”فوکس“ کریں۔ ہمیں یہ آواز تیز سے تیز ہوتی سنائی اور دکھائی دے رہی ہے۔ قوم جلد ہی آج کی مروجہ سیاست اور صحافت کو دفن کردے گی۔ (ناصر جمال)