تحریر: انور حسین سمراء، تحقیقاتی صحافی۔۔
کہتے ہیں کہ سیاست میں اخلاقی رویہ،برداشت اور سچائی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔۔ سیاسی لوگ بردباری اور تحمل سے اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے تھے اور جوابی وار کو تحمل مزاجی سے برداشت کرتے تھے۔۔ سیاسی افراد اپنے سیاسی حریفوں کو سیاسی چالوں سے چت ضرور کرتے لیکن دورغ گوئی، الزام تراشی اور کردارکشی کی آمیزش کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔۔ وعدہ خلافی، دھوکہ دہی اور چکر بازی کو اخلاقی طور پر نہ صرف برا سمجھا جاتا بلکہ اجتناب کیا جاتا۔۔ ایفائے عہد، سچائی، ایمانداری اور اخلاص سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کے وہ پیمانے تھے جو ہمیں پیارے نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور قائداعظم محمد علی جناح کی زندگیوں سے ملے۔۔ نوے کی دہائی کے بعد ملک خداداد میں سیاسی ماحول ایسا گندہ ہوا کہ بے ایمانی، جھوٹ، وعدہ خلافی، کرپشن، لوٹ و مار، نفرت اور عدم برداشت نئے معیارات بن کر سامنے آئے۔۔ تمام سیاست دانوں نے سیاست کو گندہ کرنے کے لیے اپنے قد کے مطابق حصہ ڈالا اور اس گند نے معاشرے کی چولیں ہلادیں۔
آج یہ حالت ہے کہ سیاست دان اور سیاسی ورکر جو جتنی اچھی گالی، الزام، دھوکہ دہی، فراڈ اور کرپشن کرتا ہے اتنا ہی پسند کیا جاتا ہے اور قائدین کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے۔۔ شریف فیملی نے سیاست میں غنڈہ گردی، کردار کشی، بھتہ سازی اور کرپشن کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ ان برائیوں کو معراج تک لے کرگئے۔۔ مفادات کے ٹکراؤ کو دفن کرکے مال بناؤ پالیسی کو متعارف کروایا۔۔ بھٹو خاندان کے حواریوں نے کرپشن، خوردبرد اور لوٹ مار کو اپنا طرہ امتیاز سمجھا اور کسی کا احتساب نہ کرنے کی پالیسی کو فروغ دیا تاکہ قومی خزانے سے بے دریغ جیبیں بھری جا سکیں۔۔ کپی تان نے سیاست میں عدم برداشت، گالی، نفرت، الزام تراشی اور بدتمیزی کو نہ صرف پروموٹ کیا بلکہ اس پر پہرادیا اور نوجوان نسل میں یہ خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھر دیں. چوہدری برادران نے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے بننے میں عافیت سمجھی اور زاتی مفادات کی خاطر ہر جائز و ناجائز کام کر کے خود بھی فائدے لیے اور اپنے آقاؤں کو بھی خوب نوازا۔۔ اب جب معاشرے میں تمام ناسور مضبوط جڑ پکڑ چکے ہیں اور نوجوان نسل مایوس ہوکر نفرت اور عدم برداشت کے راستے پر چل نکلی ہے تو یہ ناعاقبت اندیش سیاست دان اصلاح کی بجائے شعلہ بیانی سے جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں جو ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔۔ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ، ججز، جنرلز، بیوروکریٹس اور جنرنلسٹ نے بھی اس معاشرے کو پراگندہ کرنے میں اپنا اپنا حصہ بھی ڈالا ہے۔۔ اس نفسانفسی، کرپشن، جھوٹ، فراڈ اور اخلاقی پستی کے دور میں ملکی مفاد، سچائی، ایمانداری، تہذیب اور انصاف اپنی عزت بچا کر روپوش ہوچکے ہیں اور ان کی بحالی و واپسی کے امکانات مخدوش ہو گئے ہیں۔۔ اب تباہی، بربادی اور اللہُ تعالیٰ کا قہر اس قوم کا شاید مقدر بن چکا ہے۔۔ توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ صدق دل سے ارباب اختیار توبہ کر لیں تاکہ معاشرے کو اعلیٰ اخلاقی و اسلامی اقدار پر استوار کیا جاسکے۔۔ سیاست میں بردباری، سچائی، مستقبل و تحمل مزاجی کو پیمانہ بنیا جائے۔۔ اگر آج بھی سیاست دان عطا تارڑ، فواد چوہدری، عدلیہ ملک قیوم اور اسٹیبلشمنٹ ڈرٹی ہیری جیسے کرداروں پر انحصار کریں گے تو بہتری اور مثبت تبدیلی ایک دیوانے کا خواب بن کر رہ جائے گی اور تمام جاری موجاں بھی اپنی موت مر جائیں گی اور تباہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔۔(انور حسین سمراء)