تحریر: عباد الحق
صحافت سے وابستہ شخصیات کا حکومت یا سیاسی جماعت کا حصہ بننا کوئی نئی یا اچھنبے کی بات نہیں ہے البتہ اس رجحان میں اب اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ صحافی نگران سیٹ اپ کے ذریعے اس میدان میں اترے تو کچھ نے سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے مستقل بنیادوں پر یہ پیشہ اختیار کرلیا۔کسی بھی صحافی کی جانب سے حکومت یا سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے فیصلے نے ہمیشہ ہی ایک بحث کو جنم دیا ہے اور اس کے حق اور مخالفت میں دونوں طرح کی آرا موجود ہیں۔ تاہم اکثریت اس عمل کی ناقد رہی ہے۔ پنجاب میں نگران وزیرِاعلی کے لیے ایک میڈیا گروپ کے مالک کا انتخاب ہوا یوں حکومت کا حصہ بننے اور سیاست میں آنے والے صحافیوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہوگیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث بھی چھڑ گئی۔
ابتدائی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف میں نگران وزیرِاعلیٰ کے ناموں پر اتفاق نہیں ہوسکا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سید محسن رضا نقوی کو نگران وزیرِاعلیٰ کے لیے منتخب کرلیا۔
محسن نقوی دوسرے صحافی ہیں جو نگران وزیرِاعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں اس سے پہلے یہ اعزاز نجم سیٹھی کو ملا تھا۔ نجم سیٹھی نے 2013ء کے عام انتخابات میں پنجاب کے نگران وزیرِاعلیٰ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیے تھے اور اس وقت وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
ویسے تو ڈاکٹر حسن عکسری رضوی کا تعلق تدریس سے رہا لیکن کالم لکھنے اور نیوز چینلز پر تجزیہ نگار کے طور پر نظر آنے پر انہیں بھی ان صحافیوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے جو نگران وزیرِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی 2018 میں قائم ہونے والی نگران پنجاب حکومت کے سربراہ تھے۔
اگر کسی صحافی کے وزیرِاعلیٰ بننے کا تذکرہ ہو تو اس فہرست میں سب سے پہلا نام حنیف رامے کا نام آتا ہے۔ حنیف رامے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بنے تھے۔ اس کے بعد 1993ء میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جونیجو (ج) کی بننے والی مخلوط حکومت میں وہ اسپیکر پنجاب اسمبلی بھی رہے تھے۔ حنیف رامے کو آج بھی ایک دانشور وزیرِاعلی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اسی طرح صحافت کا ایک معتبر نام الطاف حسین وفاقی کابینہ کا حصہ رہے۔ وہ اخبار کی ادارت کو چھوڑ کر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں شامل ہوئے اور وزیرِ صنعت کی ذمہ داریاں انجام دیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پریس سیکرٹری (نیم سیاسی عہدہ) کے لیے ایک صحافی خالد حسن کو چُنا۔ بعد میں خالد حسن کو پیرس میں پریس اتاشی مقرر کردیا گیا۔ خالد حسن انگریزی اخبار روزنامہ پاکستان ٹائمز میں رپورٹر تھے اور بعدازاں مختلف انگریزی اخبارات میں ان کے کالم بھی شائع ہوتے رہے۔عام انتخابات میں بھی صحافی بطور امیدوار حصہ لیتے رہے لیکن 1988ء میں باقاعدہ طور پر صحافیوں کی جانب سے حکومت کا حصہ بننے کا رحجان شروع ہوا اور پھر بتدریج یہ بڑھتا ہی چلا گیا۔اس حوالے سے صحافی اشعر رحمٰن کہتے ہیں کہ ’صحافی کو سیاست میں شامل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح ایک صحافی کو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے‘۔ اشعر رحمٰن کے مطابق ’صحافت ایک مکمل ذمہ داری ہے اور صحافت ایک صحافی کو جو آزادی دیتی ہے اس پر سمجھوتہ کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے‘۔
اشعر رحمٰن کے بقول ’انہیں یہ بات مناسب نہیں لگتی بلکہ عجیب لگتی ہے کہ اپنے شعبے کو چھوڑ کر سیاست میں جایا جائے۔ اس طرح ایک صحافی کی خودمختار حیثیت متاثر ہوتی ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’جب بھی کسی نے مجھ سے رائے مانگی تو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ صحافت کو ترک نہ کیا جائے کیونکہ پہلے ہی بہت زیادہ سیاسی توڑ پھوڑ ہوچکی ہے‘۔
سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے نومبر 1996ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو اس کے بعد قائم ہونے والے سیٹ اپ میں بھی نجم سیٹھی حصہ بنے۔ ماضی میں معروف صحافی ارشاد احمد حقانی اور پھر عارف نظامی بھی نگران سیٹ اپ میں وزیر بنے بلکہ نگران کابینہ کے اہم رکن رہے۔ ارشاد حقانی، عارف نظامی اور نجم سیٹھی نے نگران سیٹ کی معیاد ختم ہونے پر دوبارہ کُل وقتی صحافت شروع کردی۔
ارشاد حقانی، عارف نظامی اور نجم سیٹھی نے نگران سیٹ اپ کی معیاد ختم ہونے پر دوبارہ کُل وقتی صحافت شروع کی۔ نگران سیٹ اپ سے ہٹ کر بات کی جائے تو کچھ صحافیوں نے عام انتخاب میں بھی حصہ لیا اور سیاسی جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر پارلیمان تک پہنچے۔ بائیں بارزوں سے تعلق رکھنے والے صحافی خالد چوہدری نے 1985ء سے پہلے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اسی طرح سینیئر صحافی ظہور احمد نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں حصہ لیا لیکن وہ بھی پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب نہ ہوسکے۔ ان دونوں ہی صحافیوں نے لاہور سے انتخاب لڑا تھا۔
1988ء میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں شدید سیاسی کشیدگی تھی اور اسی دور میں حسین حقانی پیپلزپارٹی مخالف دھڑے کا حصہ بنے اور نواز شریف کی پنجاب میں صوبائی حکومت میں مشیر کے طور پر سامنے آئے۔ حسین حقانی کچھ عرصے کے بعد پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور پھر 2008ء میں پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں امریکا میں پاکستان کے سفیر بنے۔ ان کے بعد ایک صحافی شیری رحمٰن کو امریکا میں سفیر لگایا گیا۔
حسین حقانی پہلے پیپلز پارٹی مخالف دھڑے کا حصہ بنے اور پھر 2008ء میں امریکا مہں سفیر تعینات ہوئے۔ ان سے پہلے ایک اور صحافی واجد شمس الحسن بھی پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں برطانیہ میں ہائی کمشنر رہے۔ ان کے علاوہ صحافی ملیحہ لودھی بھی ہائی کمشنر کے طور پر تعینات رہیں۔
انگریزی صحافت سے منسلک مشاہد حسین سید صحافت سے ایوانِ بالا تک پہنچے اور وزیر بھی بنے۔ مشاہد حسین سید 1993ء میں مسلم لیگ (ن) کیساتھ وابستہ ہوئے اور پھر جلد ہی انہوں نے پارٹی میں اپنی جگہ بنالی۔ نواز شریف نے انہیں اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں سینیٹر منتخب کروایا اور پھر وہ وزیرِ اطلاعات کی حیثیت سے ان کی کابینہ کا حصہ بن گئے اور نواز شریف کی 12 اکتوبر 1999ء کی حکومت ختم ہونے تک ان کے ساتھ رہے۔
یہ وہی دور تھا جب مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل میں مشاہد حسین سید کے ساتھ کام کرنے والے پرویز رشید سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین بنے تھے۔ بعدازاں وہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی کنگ پارٹی یعنی مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوگئے اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔ مگر اب مشاہد حسین سید ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ہوچکے ہیں۔
صحافی فرحت اللہ بابر کی پیپلز پارٹی سے طویل رفاقت ہے اور وہ ان صحافیوں میں سے ہیں جو اپنی پارٹی سے وابستگی پر ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے رکن بنے۔ فرحت اللہ بابر سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے ترجمان بھی رہے ہیں۔
عرفان صدیقی ایک استاد سے صحافی اور پھر رکن پارلیمان بنے۔ عرفان صدیقی ابتدائی طور پر سابق صدر رفیق تارڑ کے سیاسی مشیر مقرر ہوئے اور پھر طویل وقفے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے انہیں اپنا سینیٹر بنایا۔
انگریزی صحافت سے منسلک 2 ممتاز خواتین صحافی بھی رکن اسمبلی بنیں۔ ماہنامہ ہیرالڈ کی سابق ایڈیٹر شیری رحمٰن پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں اور 2008ء میں پیپلز پارٹی کی کابینہ میں وزیرِ اطلاعات رہیں اور بعد میں انہیں امریکا میں پاکستانی سفیر بھی مقرر کیا گیا۔
شیری رحمٰن کی طرح شریں مزاری بھی صحافتی سفر طے کرتے ہوئے رکن پارلیمان بنیں۔ شیریں مزاری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں اور وہ وفاقی کابینہ کا حصہ بھی رہیں۔ صحافی شیری رحمٰن اور شیریں مزاری بھی رکن پارلیمان اور وزیر بنیں۔۔ 2002ء میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کے بعد لاہور کی خاتون صحافی اور رپورٹر کنول نسیم پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں۔ کنول نسیم حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
سینیئر اور نامی گرامی صحافی ایاز امیر بھی رکن اسمبلی رہے۔ وہ سب سے پہلے 1997ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر اپنے آبائی علاقے سے رکن پنجاب اسمبلی بنے اور پھر 2008ء میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ ایاز امیر کی طرح کالم نگار بشریٰ رحمٰن بھی رکن قومی اور صوبائی اسمبلی رہیں۔ اگر موجودہ حکومت کی بات کریں تو نامور صحافی فہد حسین بھی شہباز شریف کی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں اور وہ معاون خصوصی کے طور پر فرائض ادا کر رہے ہیں۔ صحافی ایاز امیر اور فہد حسین بھی سیاست میں آئے۔نامور صحافی مظہر عباس بھی ذاتی طور پر اس بات کے حق میں نہیں کہ صحافی حکومت کا حصہ بنیں۔ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے جو پسند نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’صحافی حکومت کا حصہ بنتے ہیں جس سے صحافت اور صحافتی معیار پر سمجھوتہ ہوجاتا ہے‘۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’کسی صحافی کو حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ البتہ سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے بعد اس بات کا واضح اظہار ہونا چاہیے کہ وہ فلاں جماعت کے ساتھ ہیں اور یہ اظہار اور اعلان صحافی کی تحریر میں شامل ہو‘۔
مظہر عباس کے مطابق جب کوئی صحافی کسی حکومت کا حصہ بنتا ہے تو اس میں مفاد کا کردار شامل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ حکومت میں شامل اور پھر اس سے علیحدگی کے بعد بھلا کس طرح وہ صحافی دوبارہ سے صحافت سے شروع کرسکتے ہیں۔
صحافی مظہر عباس نے نشاندہی کی کہ مشاہد حسین سید نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے بعد صحافت کو ترک کردیا۔ بھارت میں بھی ایسی مثالیں ہیں۔ جیسے ایم جے اکبر نے سیاست میں حصہ لینے کے بعد اعلان کیا کہ وہ اب صحافت نہیں کریں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ رواج عام نہیں ہے بلکہ اکثر صحافی حکومتی عہدہ چھوڑنے کے بعد دوبارہ اخبارات میں لکھنا اور نیوز چینلز پر تجزیہ پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔
معلوم نہیں کہ آنے والے دنوں میں کون کون سے صحافی حکومت یا سیاسی جماعت کا حصہ بنتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ کسی صحافی کی بات میں اسی وقت وزن ہوگا یا پھر تحریر یا تجزیہ جاندار ہوگا جب وہ اپنے بارے میں اس تاثر کو برقرار رکھ سکیں کہ وہ غیر جانبدار، آزاد اور خود مختار ہیں۔
سوال کرنے کا حق صحافی کو دیگر لوگوں سے ممتاز بناتا۔ کسی حکومت اور سیاسی جماعت کا حصہ بننے اور پھر اسے چھوڑ کر صحافت کرنے پر ان کی اپنی ساکھ سوالیہ نشان بن جاتی ہے جو کسی صحافی کے لیے کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے۔( بشکریہ ڈان)
سیاست میں صحافیوں کی آمد
Facebook Comments