تحریر: سید ابوذر شریف
علامہ اقبال نے ساقی نامہ میں لکھا ہے کہ “زمانے کے انداز بدلے گئے،،نیا راگ ہے ساز بدلے گئے،،خرد کو غلامی سے آزادکر،،جوانوں کو پیروں کا استاد کر”۔۔ساقی نامہ کے ان دومصرعوں کے معنی بہت گہرے ہیں اوربدلتے دور کے ساتھ خود کو بدلنے اور جدت کی طرف جانے اوراسی راستے پر کامیابی پانے کا راز بھی بتا رہے ہیں۔۔جدت اور نئے دور کی بات کریں توآج کے دور کا سب سے جدید ساز ٹیکنالوجی ہے اور اس ساز کےراگ بکھیرنے کا بہترین ذریعہ ہے سوشل میڈیا،،سوشل میڈیا اس وقت ایک ایسا ہتھیار ،،ساز یا اوزار ہے جس سے بڑی سے بڑی تبدیلی ایک چھوٹی سی کوشش سے بڑی آسانی سے لائی جاسکتی ہے۔۔دنیا بھر میں اس وقت بیانیہ بیچنے اور مخالفین کو متاثر کرنے کیلے جس تیزی سے سوشل میڈیا کااستعمال،،بلکہ مئوثر استعمال ہورہا ہے،،اس کی کوئی حد نہیں،،خاص طور پر دنیا کے سیاسی میدان میں سوشل میڈیا کا کردار ایک بنیادی ہتھیار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے،،جس سے دنیا کی سپر پاور امریکا اور روس جیسے ممالک بھی محفوط نہیں۔۔دنیا تو سوشل میڈیا کے اس ہتھیار کی اہمیت اور وقعت جان بھی چکی ہے اور اس کو اپنے اپنے طور استعمال بھی کررہی ہے۔۔مگرکیا پاکستان میں اور خاص طور پر پاکستانی سیاست میں جدید دور اور آنیوالے وقت کے اس سپرویپن کی اہمیت کی کوئی خبر تو دور کی بات احساس بھی ہے،،تو اس سوال کا جواب ،،کافی حد تک نہیں ہے۔۔
ہمارے ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں اور سیاستدان آج بھی اپنی روایتی سیاست کے دائرے میں ناصرف گھوم رہے ہیں بلکہ خّود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے جدید طور طریقوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے اور جو ان جدید راستوں پر چل رہا ہے،،اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔۔مگر ان کو اس بات کا شاید ،،بلکہ یقینا بالکل بھی ادراک نہیں کہ اگر انہوں نے جدید دور کے جدید تقاضوں کو اپنی سیاست کا حصہ نہ بنایا تو آنیوالا وقت ان کا منہ چڑا رہا ہوگا،،بلکہ موجودہ سیاسی حالات پر نظر دوڑائیں تو زمانے کے بدلتے انداز کے ساتھ خود کو نہ بدلنے والوں کا آج خود وقت مذاق بنا رہا ہے۔۔زیادہ دور نہیں جاتے،،پنجاب کی 20نشستوں پر ہونیوالے ضمنی انتخابات کی ہی مثال لے لیتے ہیں،،اس الیکشن کے نتائج جتنے غیر متوقع آئے ہیں اس کا شاید کسی نے بھی نہیں سوچاہوگا،،خاص طور پر ن لیگ اور سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ کاروں کیلئے یہ نتائج کسی بڑے سرپرائز سے کم نہیں تھے،،جہاں تحریک انصاف 15نشستیں جیت گئی اورحکومتی اتحادی جماعتیں مل کر بھی بمشکل 4سیٹیں نکال سکیں۔۔نتائج آنے کے بعد ہر طرف ایک ہی بات ہے کہ شدید مہنگائی اورخراب معاشی صورتحال کا بدلہ عوام نے حکمراں جماعت سے لیا ہے۔۔لیکن یہاں ایک اہم ترین پہلو ہے،،جسے نظر انداز کیا جارہا ہے،،اور وہ پہلو ہے سوشل میڈیا کے پاکستانی سیاست میں بڑھتے ہوئے کردارکا اثر۔۔پنجاب سے پیپلزپارٹی تو پہلے ہی تقریبا ختم ہوچکی ہے،،لیکن حالیہ ضمنی الیکشن میں ن لیگ کا اپنے گڑھ پنجاب سے ہار جانا اوروہ بھی ایسے وقت میں کہ جب گزشتہ دنوں ہی پی ڈی ایم نے عمران خان کو مرکز سے اٹھا کر باہر پھینکا تھا،،کسی سیاسی معجزے سے کم نہیں،،مگر یہ معجزہ ہوا کیسے ،،اس معجزے میں مرکزی کردارادا کیا ہےسوشل میڈیا نے۔۔اوراس سوشل میڈیا کے ہتھیار کو اگر کسی پاکستانی سیاسی جماعت نے بہترین انداز میں استعمال کیا ہے تو وہ صرف تحریک انصاف ہے،،ٹوئٹر سے لیکر ٹاک ٹاک تک،،شاید ہی کوئی ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہو جہاں تحریک انصاف نے اپنے سیاسی بیانیے کو بھرپور انداز میں پروموٹ نہ کیا ہو۔۔۔دوسری طرف ہماری دیگر سیاسی جماعتیں ہیں جو سوشل میڈیا کی آج کے دور میں اہمیت کونا صرف نظر انداز کررہی ہیں،،بلکہ جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو اہمیت دیتا ہے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے،،تحریک انصاف چیئرمین عمران خان کو ان کے سیاسی مخالفین کبھی پاڈ کاسٹ،،تو کبھی ٹوئٹر اور یو ٹیوب کا سیاستدان اور وزیراعظم ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔۔مگر انہیں اندازہ ہی نہیں کہ موجودہ دور اور آنے والا وقت اسی سوشل میڈیا کا ہے اور یہی وہ لائوڈ اسپیکر ہے جہاں سے سیاسی بیانیہ کسی ایک حلقے اور ضلع میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں سیکنڈوں میں پھیلا یا جاسکتا ہے۔۔پنجاب کے ضمنی الیکشن کے غیر متوقع نتائج کے پیچھے بھی مین اسٹریم میڈیاسے زیادہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی الیکشن مہم کا اہم کردار رہا،،سوشل میڈیا کی اہمیت کااندازہ یوں لگا لیں کہ اسمارٹ فون ایک ایسی چیز ہے جو اس وقت کچرا چنتے ایک غریب ترین شخص سے لیکر تمام نعمتوں سے مالا مال صاحب ثروت شخص کےہاتھ میں ہوتا ہے،،اور اس موبائل فون پر سستے انٹرنیٹ پیکجز سے لیکر پوسٹ پیڈ پیکچز استعمال کرنیوالے ہر شخص سوشل میڈیا دیکھتا ہے،،چاہے وہ ٹوئٹر ہر،،ٹک ٹاک ہو،اسنیپ چیٹ،انسٹا گرام،،فیس بک ہو یا واٹس ایپ گروپس،،یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا تفریحی ایپز،،جیسا میں نے پہلے کہا کہ سوشل میڈیا کا بہترین استعمال پاکستان میں اگر کوئی سیاسی جماعت کررہی ہے تو وہ صرف تحریک انصاف ہے،،عمران خان کی ٹاک ٹاکرز،،یوٹیوبرز،،سے ملاقاتیں اور ان پلیٹ فارمز پر تحریک انصاف کے بیانیے کی بھرمار،،جس سے پی ٹی آئی کا بیانیہ ہر شخص کے گھر اور اس کے ہاتھ میں بغیر اس کے پاس جائے پہنچ جاتا ہے اور پہنچ رہا ہے۔ ۔ مہنگائی کے خلاف رواں سال کے آغاز میں پی ٹی ایم کی گیارہ سیاسی جماعتوں نے مل کر عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے ہٹایا،،مگر صرف تین ماہ بعد ہی ان گیارہ جماعتوں کو اپنے سیاسی مستقبل کے لالے پڑ چکے ہیں۔۔ابھی تو صرف پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج نے سب کے ہوش اڑائے ہیں،بدلتے حالات دیکھ کر لگتا تو یوں ہے کہ بات صرف یہاں رکے گی نہیں ،ایک سال بعد عام انتخابات ہونا ہیں،،سیاسی جماعتیں ہر بار کی طرح جلسے جلوسوں میں اپنی سیاسی مہم چلائیں گی،،عوام کو پھر سبز باغ دکھائے جائیں گے،،لیکن اس مرتبہ فرق ہوگا سوشل میڈیا کے ان سیاسی مہم میں ممکنہ کردار کا،،کیونکہ جس نے اس ہتھیار کابہترین طریقے سے استعمال کیا اور اپنا بیانیہ گھر گھر اور خاص طور پر نوجوان ذہنوں تک پہنچا پایا،،وہی اس سیاسی دنگل میں اپنا سکہ بہت حد تک منوا پائے گا ۔۔ابھی تک تو اس میدان میں تحریک انصاف کا کوئی مقابل نہیں،،لیکن اگر آگے جانا ہے اور اپنے دم پر بنا کسی بیساکھیوں کے جانا ہے تو سوشل میڈیا کے جدید ہتھیار کو اپنانا ہوگا ،،،اورسیاست کے ساز کو بدلنا ہوگا،،ورنہ سیاسی میدان میں بینڈ بجے گا اوراس کی آواز بھی اسی سوشل میڈیا پر گونجے گی۔۔(سید ابوذرشریف)۔۔