سیاست اور سیاستدان کیسے کرپٹ ہوئے‘ اس سے متعلق سینئر صحافی اور اینکرپرسن رؤف کلاسرا نے اپنے کالم میں اہم انکشاف کیا ہے۔۔ وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ کل پرسوں عدیل ملک سے ملاقات ہوئی۔ عدیل ملک ہمارے دوست طاہر ملک اور سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کے بھائی ہیں‘ آکسفورڈ میں پڑھاتے ہیں۔ عدیل ملک پاکستانی معیشت پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ بتانے لگے کہ وہ ڈاکٹر محبوب الحق سے بہت متاثر تھے۔ عدیل ملک نے ڈاکٹر محبوب الحق پر اچھی گفتگو کی۔ میں نے کہا کہ باقی آپ کی سب باتیں ڈاکٹر صاحب بارے ٹھیک ہوں گی لیکن ڈاکٹر صاحب ایک ایسا کام کر گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں کرپشن داخل ہوئی۔ 1985ء سے پہلے سیاست اور سیاستدانوں بارے مالی کرپشن کی باتیں کم سننے کو نہیں ملتی تھیں۔ آپ نوٹ کریں کہ ماضی میں سیاستدانوں پر کرپشن کے مقدمات درج نہیں ہوتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ بھینس چوری کے مقدمات مخالفوں پر درج ہوتے تھے۔ جو زمیندار سیاست کرتے تھے تو ان کا مقصد اتنا ہوتا تھا کہ ڈپٹی کمشنر ان کے ڈیرے پر کھانا کھائے یا پولیس افسر سے ان کی دعا سلام ہو۔ وہ زمینیں بیچ کر سیاست کرتے تھے لیکن جب محبوب الحق نے پہلی دفعہ ایم این ایز کو ترقیاتی سکیموں کے نام پر بجٹ دینا شروع کیا تو سیاست میں کرپشن داخل ہوئی۔ 1985ء کے الیکشن ویسے بھی غیرجماعتی تھے۔ اصلی اور نسلی سیاستدانوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا‘ یوں نئے لوگ نیچے سے ابھرے جنہیں ترقیاتی فنڈز کی مد میں پیسہ ملنے لگا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنرز کیساتھ مل کر پسند کے کنٹریکٹرز کو ٹھیکے دلوا کر اس میں کمیشن کھانا شروع کر دیا اور یوں سیاست کرپشن اور پیسہ بنانے کا ذریعہ بن گئی۔ یوں ان نئے سیاسی لوگوں کو لگا کہ سیاست کا مطلب ہی پیسہ کمانا ہے۔ آج وہی سیاسی نسل ہمارے اوپر حکمران ہے۔ اس بندر بانٹ کے بعد ہر بندہ سیاستدان بننے کی کوشش میں لگ گیا۔ سیاستدان بننے کا مطلب اب پاور ملنے کے ساتھ ساتھ تھانہ کچہری میں اثرو رسوخ‘ مرضی کا ڈی سی‘ ڈی پی او‘ ٹرانسفر پوسٹنگ اور پھر کروڑوں کا ترقیاتی فنڈ ہے۔ پھر ٹھیکیداروں نے خود ہی سیاستدان بننے کا فیصلہ کر لیا۔ پیسہ لگاؤ اور الیکشن جیتو۔ سینیٹ ٹکٹ خرید لو اور اپنی مرضی کی پالیسی بناؤ۔ مرضی کے بیوروکریٹ لگواؤ اور اپنے کام نکلواؤ۔ پیسہ کمانا ہی سیاست کا مقصد ٹھہرا۔ یقین نہیں آتا تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں جا کر دیکھیں‘ سینیٹرز کی اکثریت ٹھیکیداروں کی ہے‘ وہ اُن کمیٹیوں کی چیئرمین شپ لیتے ہیں جو ان کے کاروبار کو ریگولیٹ کرتی ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ روش صرف سینیٹ تک محدود نہیں‘ قومی اسمبلی میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک دوڑ لگ گئی کہ ہر حال میں اسمبلی پہنچنا ہے۔ طاقت اور اثر و رسوخ رہا ایک طرف‘ اب انہیں پیسہ بھی چاہیے۔ چند کروڑ لگا کر اربوں کماؤ۔ پکڑے جاؤ تو سیاسی انتقام کا نعرہ مارو۔ مقدمہ درج ہو تو کہہ دو کہ حکومت سیاسی انتقام لے رہی ہے۔ گرفتار ہو جاؤ تو مہنگا وکیل کر لو۔ صحافیوں سے دوستیاں اور تعلقات بھی کام آتے ہیں جو ایسی کسی صورت میں دن رات آپ کو مظلوم ثابت کرتے رہتے ہیں۔ عوام پہلے ہی اپنے اپنے پسندیدہ لٹیروں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ماتم کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کا لیڈر کیوں پکڑا گیا۔ ظلم ہورہا ہے۔ یوں عوام مل کر اپنی اپنی مرضی کے لٹیروں کو سر پر بٹھا کر دوبارہ اقتدار میں لے آتے ہیں اور وہ سب لوٹ مار وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑ کر گئے تھے۔