punjab kpc noon league ka mustaqbil makhdoosh hai

سیاستدانوں کے پہناوے

تحریر: سہیل وڑائچ۔۔

اہل سیاست، پاکستان کے ہوں یا دنیا کے کسی اور ملک کے، ان کا لباس، لب ولہجہ، تقریر، انداز اور پھر ان کا رہن سہن ،سب عام عوام کے لئے نہ صرف دلچسپی کا باعث ہوتا ہے بلکہ ان سب امور پر نہ صرف مباحثے ہوتے ہیں بلکہ تنازعات بھی جنم لیتے ہیں۔ آئیے آج پاکستان کے اہل سیاست کے لباس کا جائزہ لیں اور اس سے ان کے اندر کی تبدیلیوں اور ان کے لباس سے پڑنے والے عوامی اثرات پر تبصرہ کریں۔

حالیہ برسوں میں میاں نواز شریف کے لباس میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے ،وہ پہلے بھی سردیوں میں کبھی کبھار اسکارف اور مفلر کا استعمال کیا کرتے تھے لیکن اب مفلر ان کے لباس کا مستقل حصہ بن گیا ہے، انہوں نے رنگ برنگے مفلروں کی اچھی خاصی تعداد خریدلی ہے اسلئے ہر بار نیا سکارف یا مفلر نظر آتا ہے ۔سکارف یا مفلر لینے سے آپ کے لباس میں ایک نئے رنگ کا اضافہ ہو جاتا ہے، یوں بھی یورپ میں کہا جاتا ہے کہ مرد کے ہرلباس میں تین رنگ نظر آنے چاہئیں جبکہ عورت کے ہر لباس میں پانچ رنگوں کا امتزاج ہونا چاہئے ۔میاں نواز شریف نے چند ماہ پہلے سرخ اور میرون رنگ کالباس پہلی دفعہ پہنا، اس سے پہلے ان کی کسی تصویر میں یہ رنگ کبھی نظر نہیں آیا تھا ،پاکستانی مردوں میں یہ رنگ کبھی مقبول نہیں رہا ،ہاں البتہ انقلابی یا ملنگ یہ رنگ ضرور استعمال کرتے ہیں ۔ شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ کے سرخ اور سبز چولے تو ہماری داستانوں کا حصہ ہیں، نواز شریف نے یہ سرخ اور میرون رنگ کیوں پہنا، کیا وہ تنوع کی طرف مائل ہیں یا انکی شخصیت میں کوئی تبدیلی درآئی ہے ؟ ایک بات تو یقینی ہے کہ سرخ رنگ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھرپور زندگی گزارنے کی طرف مائل ہیں ،گرومنگ ایکسپرٹ اس رنگ کے استعمال کو کسی بڑے کنفیوژن سے مشابہہ بھی قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نواز شریف نے ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران گہرا نیلا کوٹ پہنا ہوا تھا حالانکہ اس سے پہلے آج تک ہلکا نیلا رنگ ہی ان کا فیورٹ تھا اور ن لیگی اسی ہلکے نیلے رنگ کو نواز شریف کلر کہتے تھے ،گہرے نیلے رنگ کے استعمال سے یہ ثابت ہوا کہ نواز شریف پاکستان کے روایتی مردانہ رنگوں سے بغاوت کر گئے ہیں اور اب وہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کی طرح گہرے رنگوں کے استعمال سے خوش ہوتے ہیں۔مسلم لیگ کو ان کے لیڈر کے لباس اور انکے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کی مبارک ہو۔

تحریک انصاف کے بانی چیئرمین سب سے وجیہ اور سمارٹ ہیں ۔امریکہ کے کئی صدارتی انتخابات میں ایک امیدوار اس لئے جیت گیا کہ وہ زیادہ وجیہ اور سمارٹ تھا۔ امریکی سروے نے یہ ثابت کیا ہے کہ خوبصورتی کے اپنے نمبر ہوتے ہیں، لباس کے معاملے میں خان صاحب نے شلوار قمیض کا نیا ٹرینڈ دیا وہ بطور وزیر اعظم بھی پاکستانی روایتی لباس ہی پہنتے رہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی شلوار قمیض جیکٹ اور پشاوری چپل پہن کر گئے۔ تحریک انصاف کے زیادہ تر لیڈروں نے بھی شلوار قمیض اور پشاوری چپل کو اپنا یونیفارم بنالیا۔ خان صاحب کی طرح زیادہ تر انصافیوں نے کالی عینک پہننے کو بھی اپنا شعار بنا لیا ۔عمران خان صاحب نےسرخ رنگ کبھی نہیں پہنا وہ زیادہ تر سفید اور نیلے رنگوں کے امتزاج کو پسند کرتے ہیں کسی زمانے میں وہ سوٹ بھی پہنا کرتے تھے مگر اب عرصہ دراز سے انہیں سوٹ پہنے ہوئے نہیں دیکھا ،پہلےوہ لندن جاتے تھے تو جمائما کے ساتھ سوٹ پہنے بڑے دیدہ زیب لگا کرتے تھے، اب تو سنا ہے کہ ان کے لباس کی تیاری سے لیکر انکے پہناوے تک میں انکی بیگم بشریٰ عمران کی پسند نا پسند چلتی ہے عمران خان کو جو بھی پہننے کو دیا جائے وہ پہن لیتے ہیں۔

آصف علی زرداری کے پاس ایک وقت میں بہت مہنگے سوٹ اور ٹائیاں ہوتی تھیں ، شنید ہے کہ ایک روز انہوں نے مہنگے ترین برانڈ کی ٹائیاں اپنے دوستوں میں بانٹ دیں اب تو وہ کبھی کبھارہی سوٹ اور ٹائی زیب تن کرتے ہیں، زیادہ تر شلوار قمیض اور اسی رنگ کی ویسٹ کوٹ میں ملبوس رہتے ہیں۔ پاکستان میں عام رواج تو یہ ہے کہ ویسٹ کوٹ گہرے رنگ کی ہوتی ہے جبکہ سوٹ اسی شیڈ میں ہلکے کلر کا ہوتا ہے لیکن زرداری صاحب کے شلوار قمیض اور ویسٹ کوٹ کا کلر ایک ہی ہوتا ہے اُنکےوالد حاکم علی زرداری بھی شلوار قمیض کے ساتھ ویسٹ کوٹ ہی پہنتے تھے۔ آصف زرداری نے بھی وہی سٹائل اپنایا ہے آصف زرداری عام طور پرہلکے رنگ استعمال کرتے ہیں۔ سندھیوں کو خاص طور پر گہرا نیلا اور سبز رنگ پسند ہے مگر آصف زرداری وہ رنگ کم ہی پہنتے ہیں البتہ سندھی ٹوپی اب انکے لباس کا لازمی حصہ بن چکی ہے، انکی اسی سندھی ٹوپی پر اعتراض ہوا تو سندھ میں اس کاسخت ردعمل آیا اور آج تک اسی حوالے سے سندھی اجرک اور ٹوپی ڈے منایا جاتا ہے ۔

بلاول بھٹو زرداری بڑے سیاسی قائدین میں سے عمر میں سب سے چھوٹے ہیں ،اپنے لباس کے حوالے سے انہیں جتنا خیال رکھنا چاہیے وہ اتنا نہیں رکھتے انکے قریبی دوستوں کا کہنا ہے وہ لندن میں برانڈز کے سستے اسٹورز سے شاپنگ کرتے ہیں، آج کل وہ عام طور پر شلوار قمیض پہن کر ہی عوامی جلسوں میں آتے ہیں زیادہ تر کالی شلوار قمیض پہنتے ہیں جو ان کے گورے رنگ پر بہت سجتی ہے انہیں ویسٹ کوٹ پہنے کبھی نہیں دیکھا وہ عام طور پر نیلے کالے یا برائون کوٹ پہنتے ہیں۔

امریکہ سے ٹرینڈ گرومنگ ایکسپرٹ حامد سعید کا کہنا ہے کہ آپ جو بھی رنگ پہنتے ہیں اسکا تاثر کیا ہوگا اسے جاننا ضروری ہے مثلاً اگر کالا سوٹ، سفید شرٹ اور ریڈ ٹائی پہنی جائے تو یہ پاور ڈریس ہے جس کا مطلب ہے اس شخص کی اپنی ایک شخصیت ہے اس پر غلبہ پانا مشکل ہے ۔حامد سعید سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کا کالا ڈریس اسی چیز کی نشاندہی کرتا ہے، ان کے خیال میں میرون اور برائون کلر ایشیائی مردوں کو سوٹ نہیں کرتے، ان کے خیال میں نواز شریف کا میرون یا ریڈ کلر کا استعمال کنفیوژن کا تاثر دے رہا ہے۔ حامد سعید کہتے ہیں ایشیائی مردوں کو کالا، نیوی بلیو، اور گرے کلر زیادہ بہتر لگتےہیں انہیں زیادہ تر یہی رنگ پہننے چاہئیں۔

کہتے ہیں کہ آپ کا محبوب جو بھی کرے آپ کو وہی اچھا لگتا ہے ،سیاست دان بھی اپنے حامیوں کے محبوب ہوتے ہیں وہ جو بھی رنگ اپنائیں، جو بھی فیشن کریں ان کے حامیوں کے لئے قابل تقلید ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اہل سیاست اپنے لباس اور رنگوںکے انتخاب میں یہ خیال رکھیں کہ ان رنگوں سے کیا تاثر ملے گا۔ (بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں