تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، یقین مانیں سیاست پر لکھنے کا کبھی دل چاہتا ہے نہ کبھی سوچ آتی ہے، عام لوگوں کے مسائل ہی اتنے زیادہ ہیں کہ سیاست کی طرف ذہن کم کم ہی جاتا ہے، ویسے بھی سیاست ہمارے ملک میں ’’سیاہ ۔ست‘‘ بن چکی ہے، اور عوام کے نزدیک تو اسے گالی کے طور پر بھی لیا جاتا ہے، اگر کسی نے کسی کے ساتھ دھوکا کیا ہو،یا کسی نے کسی سے کوئی بات کرکے پھر اس سے پلٹ گیا تو سامنے والا فوری کہہ دیتا ہے، یار میرے ساتھ سیاست تو نہ کرو۔۔ اس وقت ملک میں اتنا برا حال ہے کہ شاید ہی حکمران طبقے کے علاوہ کوئی آپ کو خوش نظر آئے۔۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ بزرگ پنشن کی لائن میں، نوجوان پٹرول کی لائن میں، خواتین بارہ ہزار لینے والی لائن میں، بچے راشن کی لائن میں اور ملک کھڈے لائن میں ہے۔۔ اللہ تبارک وتعالی ٰاس ملک کے تمام غریبوں اور مڈل کلاس طبقے پر اپنا خصوصی کرم فرمائے۔۔
آپ بھی شاید ہماری بات سے اتفاق کریں گے کہ تبدیلی کا سفر۔۔ایاک نعبدوایاک نستعین سے شروع ہوا، ان للہ مع الصابرین سے ہوتا ہوا۔۔ اناللہ واناالیہ راجعون کی طرف گامزن ہے۔۔اس تباہی و بربادی کی ذمہ دار حکومت ہے یا سلیکشن کمیٹی؟؟ کیا سلیکٹرز(ایمپائرز) کو کسی قسم کی شرمندگی محسوس ہورہی ہے؟؟ قوم کو مدینہ کاٹکٹ دکھا کر ’’کُوفے‘‘ کے راستے پر ڈال دیاگیا۔۔ باباجی فرماتے ہیں، پی ٹی آئی کو اگر قیام پاکستان کے فوری بعد انیس سو سینتالیس میں بھی حکومت ملتی تو انہوں نے یہی رونا تھا انگریز پورا ملک تباہ کرگیا۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔۔تبدیلی کا کیڑا اب صرف ان لوگوں میں زندہ ہے جن کا جیب خرچ ابھی تک والدین اٹھا رہے ہیں۔ ۔باباجی کی باتیں سن کر ہمارے پیارے دوست کہاں خاموش رہنے والے تھے فوری بولے۔۔ تبدیلی لوٹوں سے شروع ہوئی ہالینڈ کی سائیکل سے ہوتی ہوئی انڈوں، مرغیوں، کٹوں اور پھر IMF کی خودکشی تک تو پہنچی مزید پیش قدمی جاری ہے۔ہمارے ایک ’’پٹواری‘‘ دوست ( ن لیگ سے تعلق ہے) سرگوشیانہ انداز میں کہنے لگے۔۔ مجھے اللہ سے قوی امید ہے کہ جو مسلمان پی ٹی آئی کے فتنے سے بچ گیا وہ دجال کے فتنے سے بھی بچ جائے گا، انشااللہ۔ہم نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ۔۔کپتان خود تو سائیکل پر دفتر نہ جاسکے لیکن عوام کو سائیکل چلانے پر مجبور کردیا۔باباجی نے موبائل کا کیلکیولیٹر کھول کر کچھ جمع تفریق کی پھر سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھنے لگے۔۔ہم نے پوچھا ، کیا ہواباباجی ؟ فرمانے لگے۔۔ وہ جو پچھلی حکومت میں روزانہ بارہ ارب روپے کی کرپشن ہورہی تھی کیا اب بھی ہورہی ہے؟ ہم نے کہا، نہیں باباجی، اب کدھر کرپشن؟ کپتان نے خود کھاتا ہے نہ کسی کو کھانے دیتا ہے۔۔ باباجی ہماری بات سن کر زیرمونچھ مسکرائے اور کہنے لگے۔۔ بیٹاجی ،اگر کرپشن نہیں ہورہی تو بائیس ماہ میں دوسوچونسٹھ ارب روپے جمع ہوچکے ہوں گے وہ کہاں ہیں؟؟ہم ہنس دیئے ،ہم چپ رہے، مطلوب تھا پردہ ترا۔۔ویسے غریب عوام جو انصافین حکومت کو عام انتخابات سے پہلے سمجھتی تھی، اب بھی فرشتہ ہی سمجھتی ہے، لیکن موت کا۔۔
نیوزی لینڈ بھی کورونا فری ملک بن گیا۔۔ وہاں کی خاتون وزیراعظم نے ثابت کیا کہ دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔۔ عورت ہوکر کسی بھی مرحلے پر خود کو کمزور ثابت نہیں کیا۔۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نیوزی لینڈ کورونا فری ملک کیسے بن گیا؟ اس کی وجوہات کیا تھیں؟ چلیے تو پھر وجوہات بھی سنیئے۔۔وہاں لاک ڈاؤن میں شٹر اٹھاکر کاروبار کرنے والا نہیں تھا، حکومت نے بند کرنے کا کہا تو سب نے اپنا کام بند رکھا۔۔وہاں ایسا کوئی ’’دانش وڑ‘‘ نہیں تھا جو کورونا کو ڈرامہ ثابت کرے یا پھر اسے زکام، فلو کی طرح عام بیماری قرار دے۔۔ وہاں کسی نے اسپتالوں اور قرنطنیہ مراکز کی جعلی وڈیوز کے ذریعے پراپیگنڈا نہیں کیا جس سے عوام شک میں بھی مبتلا نہیں ہوسکے۔۔ وہاں کوئی پانچ لاکھ کی نعش خریدنے اور بیچنے والا نہیں تھا۔۔وہاں کوئی زہر کا ٹیکا لگانے والا بھی نہیں تھا۔۔ وہاں کوئی شیعہ ایسا نہیں تھا جس نے جلوس پر کمپرومائز کرنا گناہ سمجھا ہو۔۔ وہاں کوئی سنی ایسا نہیں تھا جس نے مساجد کے رش کو محدود نہ کیا ہو۔۔وہاں تاجروں نے حکومت کو بلیک میل نہیں کیا۔۔وہاں عید پر شاپنگ مراکز پرعوام نے رش نہیں لگایا۔۔وہاں کی حکومت نااہل نہیں تھی ،اسے فوٹو شوٹ سے زیادہ عوام کے جان کی فکرلاحق تھی۔۔وہاں لاک ڈاؤن میں ذخیرہ اندوزوں نے اندھا دھند منافع نہیں کمایا۔۔وہاں ماسک اور دیگر ادویات کے نرخ وہی رہے جو لاک ڈاؤن سے پہلے تھے۔۔وہاں وزیروں،مشیروں نے پریس کانفرنسوں سے زیادہ فیلڈ ورک کیا۔۔وہاں کے میڈیا نے عوامی مسائل کو اجاگر کیا، کرنل کی بیوی، ٹھیکے دار کی بیٹی، چینی کی رپورٹ اور سیاست پر وقت ضائع نہیں کیا۔۔وہاں کسی نے وبا کو ڈرامہ ، جھوٹ، یا دجال کی چال قرار نہیں دیا۔۔ وہاں کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ سنامکی کا قہوہ پی لو، لہسن کھالو، ادرک کی چائے میں لیموں نچوڑ کر پی لو۔۔ خدا کے لیے اب بھی اپنی قوم پر رحم کریں۔یہ نہ ہو کہ آپ کو یقین آنے تک آپ بہت سے اپنوں کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے ہوں۔۔
ویسے یہ بات بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ جب تک کورونا ویکسین دریافت ہوگی،پاکستانی جنگل کے ہر پودے کا قہوہ بنا کر پی چکے ہونگے لیکن ماسک کی عادت پھر بھی نہیں ڈالیں گے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کا دعوی ہے کہ ۔۔بس ایک بار ڈاکٹر کرونا وائرس کی ویکسین بنا دیں پھر تو پاکستانی خواتین یوٹیوب پر دیکھ کربھی بنا لیں گی۔۔عید کے دنوں میں مرغی کا گوشت اچانک کراچی میں ساڑھے چار سو روپے کلو تک پہنچ گیا۔۔ جب کہ رمضان المبارک کے آغاز میں یہی گوشت دوسوستر روپے کا مل رہا تھا۔۔اب جب سے سوشل میڈیا پر برائلرمرغی میں وائرس کی خبریں چل رہی ہیں، کراچی میں گوشت کے نرخ تین سو پندرہ روپے فی کلو پر آگئے۔۔ویسے کبھی آپ نے نوٹ کیا ہے،پاکستان میں ہر حادثے کے بعد ڈبل سواری پر پابندی لگتی ہے اورہر بیماری میں برائلر مرغی کو شامل کر لیا جاتاہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے، جب ماسک نیچے کرتا ہوں تو ڈاکٹر والی فیلنگ آتی ہے کہ سب کو بولوںآپریشن کامیاب رہا مریض کو دو گھنٹے میں ہوش آجائے گا۔۔باباجی ایک دن ہمیں بتانے لگے، آج میں سبزی لینے گیا،اچانک برابر میں کھڑی خاتون نے میرا ہاتھ پکڑکر پوچھا۔۔اجی سنتے ہو، مٹرلے لوں، چھیل لوگے؟؟میں نے چہرے سے ماسک ہٹایا تو وہ شرماکر بولی۔۔ہائے اللہ، ہمارے’’وہ‘‘ کدھر گئے، وہ بھی ایسا والا ماسک پہنے ہوئے تھے، اسی لیے کہتا ہوں۔۔خطرہ ابھی ٹلانہیں۔۔گھر پر رہیں محفوظ رہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خود کو دوسروں سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیں، سورج ہویاچاند اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔