crime reporters ki tanzeem ke aezaaz mein zehraane ka ahtemaam

صرف کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن والے ہی صحافی ہیں؟؟

خصوصی رپورٹ۔۔

صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے پے درپے ناخوشگوار واقعات پر کراچی پولیس چیف اور کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے کراچی پولیس چیف کو صحافیوں کی لسٹ پیش کی گئی ،سی آر اے کے مطابق اسے کراچی پولیس نے سرکولیٹ کردیا۔۔

کراچی پولیس اورکرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن  کی جاری کردہ پریس ریلیز میں فرق پایا گیا اب صورتحال یہ ھے کہ سی آر اے کی ممبران  کی تعداد تقریباٰ 300 کے قریب  یا کچھ زائد ھو سکتی ہے سی آر اے کی پریس ریلیز سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صرف سی آر اے کے ممبران ھی اصلی صحافی ھیں باقی تمام جعلی ھیں یہ ایک دیوانے کا خواب تو ھو سکتا ھے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے سی آر اے نے دیگر صحافیوں سے خود کو ممتاز کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جسے ھرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔۔کیونکہ صحافت کے میدان میں ایسے ممتاز صحافی بھی ھیں جو سی آر اے کے ممبران نہیں ھیں اور نا ممبران بننے کے خواہشمند ھیں کیونکہ ہر صحافی اپنے طریقہ کار سے صحافت کرتا ھے بلاوجہ کی پابندیاں قبول نہیں کرتا ۔۔

یہاں  کچھ صحافیوں کا ذکر کرتے چلیں جو سی آر اے کے ممبران نہیں مگر صحافت میں اعلیٰ مقام رکھتے ھیں اور اپنی رپورٹنگ سے بروقت عوام کو آگاھی دیتے ھیں جیسا کہ کورٹ رپورٹر/ بلدیاتی رپورٹر/ اسپورٹس رپورٹر/ ایجوکیشن رپورٹر / ھیلتھ رپورٹر ز۔۔ کے یو جے اور پی ایف یو جے کے ممبران صحافی ھیں ۔۔سی آر اے کی پریس ریلیز سے پولیس اور صحافیوں کے درمیان تنازعات پیدا ھونے کا سخت اندیشہ ھے کیونکہ پولیس اسے صحافی تصور کرے گی جو سی آر اے کا ممبر ھوگا جب کہ صحافی اپنے ادارہ کا تعارف کرائے گا جو کہ صحافی کی اولین شناخت اسکا ادارہ ھوتا ھے اگر سی آر اے ان اخبارات پر پابندی عائد کرادے تو جن کے کرائم رپورٹر ان کے ممبران نہیں تو معاملہ حل ھو سکتا ھے لہٰذا سی آر اے کو ایک مراسلہ حکومت سندھ کو بھی ارسال کرنا چاھئے کہ ان اخبارات اور میگزین  کی ڈیکلریشن منسوخ کی جائے کہ ان کے رپورٹر ھمارے ممبر نہیں ھیں پھر تو ٹھیک ھے بصورت دیگر پاکستان نیوی اور سندھ پولیس کے درمیان ھونے والے واقعہ کی طرح صحافی اور پولیس روزانہ الجھتے ھی نظر آئیں گے کراچی پولیس کو چاھئے کہ محکمہ انفارمیشن سے  رجسٹرڈ اخبارات کی فہرست طلب کرے جن کے اِدارے رجسٹرڈ ھیں ان کے رپورٹر کو صحافی تصور کیا جائے جن کے ادارے رجسٹرڈ نہیں ھیں انہیں جعلی تصور کیا جائے اس طرح معاملہ کا سادہ سا حل نکل سکتا ھے دوسرا یہ کہ کسی بھی تنظیم کو یہ حق بلکل نہیں کہ حکومت سندھ کے محکمہ انفارمیشن سے منظور شدہ ادارے کو جعلی قرار دے اس تحریر کے سی آر اے کو بھی چاھیے کہ ایک مزید پریس ریلیز جاری کرے تاکہ ابہام دور ھو۔۔(خصوصی رپورٹ)

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں