nawabshah train haadsa Ghair mehfooz safar

سندھ سرکار امن وامان کیلئے سنجیدہ

تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔

سندھ اس وقت بدامنی، لاقانونیت ،اغوا برائے تاوان، قتل و غارت، ڈکیتی ،چوری کے وارداتوں میں ڈوبا ہوا ہے. سندھ باالخصوص سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں اس وقت امن امان چئلينج بنا ہوا ہے. آئے روز کوئی دلخراش واقعہ رونما ہو رہا ہے. یہ بدامنی، لاقانونیت قتل و غارت حکومتی نااہلی، پولیس کی غفلت کی وجہ سے ہو رہی ہے یا کوئی اور وجوہات ہیں، آج تک کسی ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر یا حکمران جماعت کے کسی فرد کو نہ تو اغوا کیا گیا ہے نہ ان کے بھائی یا کسی خاندان کے فرد کو اغوا کیا گیا ہے. پھر عام لوگوں غریب مسکینوں کو کیوں اغوا کیا جا رہا ہے. قبیلائی تکرار میں کوئی منتخب نمائندہ نہ قتل ہوا ہے نہ کسی کے خاندان کے فرد کو قتل کیا گیا ہے. اگر لاقانونیت اغوا برائے تاوان عام ہوتی تو اس کا شکار ہر کوئی ہو سکتا ہے مگر یہاں انتقام کا نشانہ بھی عام لوگ ہو رہے ہیں تو جرائم کا ارتکاب بھی غریب مسکین ہو رہے ہیں. سب جانتے ہیں کہ سندھ میں کرمنلز، ڈکیت کی سرپرستی کون کر رہا ہے. یہی وجہ ہے کہ اپر سندھ میں اس وقت 275 انعام یافتہ ڈکیت جرائم پیشہ عناصر آزاد گھوم رہے ہیں جن کے اپر سرکار کی جانب سے 58 کروڑ روپے سے زائد کی رقم بطور انعام مقرر کردی گئی ہے. اس وقت سندھ میں 30 ہزار سے زائد ڈکیت، جرائم پیشہ عناصر روپوش ہیں جو قانون سے بالاتر ہیں یا قانون کی گرفت میں نہیں آتے. سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں وقفہ وقفہ سے 10، 15 افراد کو بیک وقت قتل کردیا جاتا ہے. پورے گاؤں کے لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے. تازہ کچھ عرصہ قبل شکارپور کے علاقے گڑھی یاسین میں لال قلندر شهباز کے زائرین کو روک کر لوٹ مار کی گئی اور خواتین کی شلواریں اتاری گئی زیادتی کی کوشش کی گئی مگر پولیس نہ پہنچ سکی. گھوٹکی سے سکھر تک ایم فائیو موٹروے پر رکاوٹیں کھڑی کرکے لوٹ مار کی جاتی ہے اور خواتین کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے مگر افسوس کہ قانون ڈکیتوں کے خلاف حرکت میں نہی آتا.

سندھ ہائی کورٹ میں امن امان کے متعلق جوڈیشل نوٹس پر سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ سندھ باالخصوص اپر سندھ سردار، وڈیروں نے امن امان تباہ کیا ہے. اگر 10 سرداروں کو گرفتار کیا جائے تو تمام ڈاکوؤں کرمنلز خود پیش ہوں گے اور امن امان قائم ہوجائے گا. اس موقع اسسٹنٹ ایڈووکیٹ زاہد فاروق مزاری نے عدالت کو بتایا کہ سردار یا ڈاکوؤں کچھ بھی نہیں ہیں، اصل مسئلہ حکومت ہے، انہوں نے مثال دی کہ نواز شریف کے دور اقتدار میں کراچی میں رینجرز اور پولیس کے سامنے بوری بند لاشیں ملتی تھی جب نواز شریف نے کہا کہ امن ہوگا تو رینجرز اور پولیس نے کراچی سمیت سندھ بھر میں امن قائم کرکے دکھایا. انہوں نے کہا کہ عدالت حکومت کو طلب کرے جب تک حکومت نہی چاہیے گی امن امان قائم نہی ہوگا. عدالت میں ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو نے انکشاف کیا کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے اگر پولیس کو جدید ٹیکنالوجی اور فوجی اسلحہ دیا جائے تو وہ 6 ماہ کے دوران کچے کا علاقہ ڈاکوؤں سے کھالی کرائیں گے اور امن امان قائم کرکے دکھائیں گے نہیں تو وہ عدالت میں استعفیٰ لکھ کر دیں گے. عدالت میں مزید انکشافات ہوئے کہ پہلے ڈاکو لوگوں کو اغوا برائے تاوان کیلئے اغوا کرتے تھے اب تو مغوی نوجوانوں کو اغوا کرکے جنسی زیادتی کرکے ویڈیو رکارڈ کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں. ڈاکو مغویوں کے خواتیں کو بلا کر ان کے ساتھ بھی زیادتی کرکے ویڈیو بنا رہے ہیں اور ڈارک ویب پر اپلوڈ کر رہے ہیں، عدالت کو بتایا گیا ہے سالانہ دو ارب روپے سے زائد کی اکنامی ہو رہی ہے.

ایک خیال یہ بھی ہے کہ سندھ میں بھی بدامنی لاقانونيت، قتل و غارت ،اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، چوری کے پیچھے حکمران جماعت، اس کے وزیر، مشیر، منتخب نمائندے، اور نیچے تک لوگ شامل ہیں. پولیس کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا ہے. صرف ضرورت کے وقت اپنے مفادات انتقام اور کمداری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے. سردار نواب، جاگیردار، سیاستدان اپنا عروج، اقتدار، پاور، طاقت طویل کرنے اور دہشت برقرار رکھنے کیلئے سب کچھ کروا رہے ہیں اور یہ سب کچھ جان بوجھ کر ہو رہا ہے،! سمیت سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کی نافذ کردہ بدامنی، لاقانونیت، میں عوام جکڑی ہوئی ہے. ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی نے عدالت میں رپورٹ جمع کرادی ہے کہ سکھر ڈویژن میں 3 سال میں 22870 جرائم کی وارداتیں ہوئیں۔ جس میں 9250 پرسن جرائم، 2277 جائیداد کے جرائم، 39 اغوا برائے تاوان، 10804 عام وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں ، 2020 میں سکھر ضلع میں 2664 جرائم، 2021 میں 2737 اور 2022 میں 2508 وارداتیں ہوئیں۔ ضلع خیرپور میں سال 2020 میں 3324، 2021 میں 3574، 2022 میں 3138 جرائم کے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ضلع گھوٹکی میں 2020 میں 1488، 2021 میں 1566 اور 2022 میں 1871 جرائم ریکارڈ کیے گئے، جن میں اغوا کے 21 واقعات شامل ہیں۔ ان میں ہزاروں ایسے واقعات جرائم ہوئے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے نہ ان کا کوئی مقدمہ درج ہوا ہے. ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی کس طرح مشکل ہو گئی ہے. عدالت میں سیکرٹری داخلہ سعید مگنیجو نے تحریری رپورٹ دی ہے کہ 2018 سے 2023 تک پولیس کو 20 بلین سے زائد رقم جاری کی گئی ہے۔ سال 2018 اور 2019 میں پولیس کو ملازمین کی فلاح و بہبود، آپریشنز، سبسڈی، ٹرانسپورٹیشن،  اور دیگر مد میں  89 ارب 94 کروڑ 31 لاکھ 93 ہزار روپے مختص کیے گئے۔ جس میں سے 79 ارب 24 کروڑ 80 لاکھ روپے جاری کیے گئے جبکہ 74 ارب 54 کروڑ 52 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ سال 2019 اور 2020 میں پولیس کے بجٹ میں 98 ارب 50 کروڑ 91 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے جس میں سے 84 ارب 58 کروڑ 88 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ اور 78 ارب 4 کروڑ 47 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ سال 2020 اور 2021 میں پولیس کے لیے ایک ارب 2 ارب 16 کروڑ 21 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے جن میں سے 84 ارب 21 کروڑ 23 لاکھ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ 84 ارب 22 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ سال 2021 اور 2022 میں پولیس کے لیے ایک ارب ارب 91 کروڑ 28 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔ جس میں سے 93 ارب 34 کروڑ 86 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ سال 2022 اور 2023 میں پولیس کے لیے ایک کھرب 9 ارب 83 کروڑ 86 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جس میں سے 87 ارب 87 کروڑ 49 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ اپر دیئے گئے اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتنی بجیٹ ملنے کے باوجود بہتری کیوں نہیں آرہی ہے. دیکھا جائے تو جہاں جرائم ہی جرائم ہیں، وہیں پر بچے بھی محفوظ نہیں ہیں.

گزشتہ سال 2021 میں بچوں پر تشدد، قتل اور جنسی زیادتی اور کم عمری کی شادی کے 3850 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ملک میں روزانہ 10 بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں 1784 لڑکے اور 2068 لڑکیاں جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ 1060 لڑکے اور لڑکیوں کو زبردستی اغوا کیا گیا۔ 483 لڑکوں اور 410 لڑکیوں کو جنسی زیادتی/ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ 234 لڑکوں اور 146 لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ 162 لڑکوں اور 269 لڑکیوں کو زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 22 لڑکوں اور 18 لڑکیوں کو ریپ/ریپ کے دوران قتل کیا گیا. اجتماعی زیادتی کے دوران 10 لڑکوں اور 3 لڑکیوں کو قتل کیا گیا اور 14 لڑکوں اور 8 لڑکیوں کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

سندھ میں بچوں پر جنسی تشدد زیادتی قتل کے 885 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ خیرپور میں 152۔ ڏاڍو 73۔ لاڑکانہ 61۔ گھو ٹکی میں 60، سکھر میں 40. کراچی میں 29 کیسز سامنے آئے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ صرف 47 مقدمات میں ملزمان کو سزا ہو سکی۔

انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق سندھ میں 17 ماہ کے دوران 200 خواتین کو قتل کر دیا گیا ہے. 208 خواتین نے خودکشی کی۔ کارو کاری کے 128 واقعات بھی ہوئے۔ جب کہ جنسی زیادتی کے 75، گھریلو تشدد کے 33 اور ہراساں کرنے کے 6 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں.

اس صورتحال میں غریب، شریف انسان جا رہنا جینا کسی عذاب سے کم نہیں ہے، جہاں 24 گھنٹے جرائم ہی جرائم ہیں، اغوا برائے تاوان، قتل و غارت ،ڈکیتی ،زمینوں پر قبضہ جیسے جرائم سے انسانی حقوق غضب ہو رہے ہیں. سندھ پولیس کی جہاں تک بات ہے کہ پولیس کو خود مختار بنایا جائے. سندھ پولیس کے چیف آئی جی سندھ غلام نبی میمن صاحب انتہائی قابل، ایماندار، فرض شناس اور حساس طبیعت کے مالک ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کچھ کرنا چا رہے ہیں، اس کے پاس اس وقت سندھ میں بہترین پولیس افسران کی ٹیم موجود ہے. لیکن شاید حکمران جماعت /صوبائی حکومت ان کے کام میں رکاوٹ بن رہی ہے یا بننا چاہتی ہے. حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں جب تک سندھ پولیس کو خود مختار نہی بنایا جاتا. سیاسی مداخلت ختم نہی کی جاتی تب تک، بہتری کی امید ممکن نہیں ہے. سندھ پولیس آرڈیننس /ایکٹ 2019 ع کے بعد سندھ پولیس کو کمزور کرکے حکمران جماعت نے صرف اپنے مقاصد، حاصل کرنے، سیاسی حیثیت برقرار رکھنے مخالفین کو ٹارگٹ کرنے کی حد تک رکھا گیا ہے. یہی وجہ ہے کہ پولیسنگ کی کمزور ہونے کی تمام مسائل پیدا ہوئے ہیں. سندھ پولیس کو خودمختاری چاہیے اور سیاسی /حکمران جماعت کی مداخلت ختم کی جائے.  پتا چلا کہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن صاحب پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار ہیں، خوف خدا رکھنے والے افسر ہیں. وہ آج بھی سرکاری فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں جب انہی ایس ایس پی کے دوران دی گئی تھی، وہ آج بھی آئی جی ہائوس میں نہی رہتے. عدالت پوليس آرڈیننس /ایکٹ 2019 ع کا جائزہ لے اور پولیس کی بہتری کیلئے ترمیم کا جائزہ لیا جائے. سندھ میں آئی جی کو انہی اپنا کام کرنے دیا جائے. پولیس افسران کے تبادلے کے اختیارات سیاستدانوں /ہائوسز کے بجائے آئی جی سندھ کو ہونے چاہئیں. سندھ میں ضلع سطح تعلقہ وائیز پر سیاسی ہائوسز کی پولیس میں مداخلت نہ کریں. ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹر بالکل بھی مداخلت نہ کریں. الیکشن سمیت تمام سیاسی پروسیس سے پولیس کو الگ رکھا جائے. غیر قانونی طور پر پولیس کو حراساں نہ کیا جائے. آپ یقین کریں سندھ میں امن امان کی صورتحال بہتر سے بہتر قائم ہو سکتی ہے. کیونکہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے سندھ میں تمام ادارے تباہ ہو چکے ہیں. اس وقت عدلیہ سمیت، سندھ پولیس، سیاسی سماجی جماعتیں، شہری سول سوسائٹی، حکومت رینجرز اور پاک فوج کو ایک پیج پر آنا ہوگا، سیکورٹی ایجنسیوں کی معاونت مدد سے کچے کے ساتھ پکے کے ڈاکوؤں، کرمنلز، وائیٹ کالر، جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مشترکہ آپریشن شروع کی جائے. جب تک سندھ میں مکمل طور پر امن امان قائم نہی ہوتا ہے آپریشن کو برقرار رکھا جائے۔۔(علی انس گھانگھرو)۔۔

ابصارعالم حملہ کیس، ملزمان پر فردجرم عائد نہ ہوسکی۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں