تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔
اللہ کو مانو فائرنگ بند کرو، ایس ایچ او صاحب بھی زمین پر گرا پڑا ہے، 8 سے 10 افراد قتل ہو چکے ہیں اب تو بس کرو. سوشل ميڈیا ہر وائرل ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار زمین پر موجود کسانوں پر فائرنگ کرنے والے زرداری قبیلے کے مسلحہ افراد کو منتیں کر رہا دیکھا جا سکتا ہے. ایک ہفتہ قبل آصف علی زرداری کے آبائی ضلع نوابشاهه کے علاقے نواب ولی محمد میں زمین کے تنازع پر زرادی اور بھنڈ قبائل میں جھگڑا ہوا، زرداری مسلحہ افراد کی فائرنگ سے ایس ایچ او عبدالحمید کھوسو سمیت بھنڈ برادری کے 6 افراد جاں بحق ہوگئے اور ایک درجن کے قریب لوگ زخمی ہوئے. تقرینا تین دن تک قاضی احمد روڈ پر لاشیں رکھ کر دھرنا دیا گیا. جی ایم سید کے پوتے سید زین شاہ مقتولین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے دھرنے میں دن رات بیٹھے رہے. پولیس کی اتنی مجال نہیں کہ زرداری قبائل لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کر سکیں یا جو ملوث عناصر تھے ان کو گرفتار کیا جائے. دھرنے میں ایس یوپی کے سید زین شاہ، جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو، قومی عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو، ستپ کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی، شاعر مہر ڈبائی و دیگر شریک رہے. میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی حکومت نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی. تین دن لاش رکھنے اور دھرنا دینے کے بعد زرادی گروپ کے خلاف مقدمہ درج ہوا،. 390 ایکڑ زمین بھنڈ برادری کو واپس دی گئی. اور 7 ملزمان کو گرفتار کیا گیا. یوں مقتولین کی جناز نماز ادا کرنے کے بعد تدفین کی گئی. اس واقعہ سے قبل بھی زمین پر قبضہ کی کوشش کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا. سردار میر منظور پنہور کے سرپئنچ میں فیصلا بھی ہوا مگر فتوی نہ آنے کی وجہ سے 6 انسانی جانوں کا ضیاع ہوگیا. واقعہ کے پانچویں روز شہید ایس ایچ او عبدالحمید کھوسو کا قتل کیس سرکاری مدعیت میں درج کیا گیا. یہ پولیس کی بدنصیبی ہوگی یا لاوارثی جو ایس ایچ او قتل ہوا ہے اور پولیس حکمران جماعت کی وجہ سے ملزم کے خلاف کارروائی نہی کر رہی تھی. ایس ایس پی سعود مگسی کو ڈر تھا کہیں ان کا تبادلہ نہ ہوجائے. شاید اتنی پولیس پہلے کبھی کمزور نہی تھی. آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سندھ میں مسلسل 13 سالوں سے پیپلزپارٹی کو اقتدار ملنے کی وجہ سے کتنے سفاک بن گئے ہیں. جس کو جی چاہا قتل کردیا جس کو جی چاہا ماردیا اور زمینوں بنگلوں، شگر ملز پر قبضہ کرلیا. ابھی نواب ولی محمد میں لاشیں پڑی ہی تھی کہ سکھر کے علاقے تماچانی تھانے کی حدود گاوں گیلو میں زمین کی بات پر بھائیوں کی آپس میں لڑائی ہوگئی جو خونے جھگڑے میں تبدیل ہوگئی. دو بھائیوں نے فائرنگ شروع کردی اور اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنا شروع کردیا، چند لمحوں میں ایک خاتون سمیت 6 افراد قتل ہو گئے اور ایک خاتون زخمی ہوگئی. پولیس کے مطابق فائرنگ میں تین سگے بھائی غلام محمد، غلام نبی، غلام اکبر اور اس کی بیوی نسرین شیخ، بھتیجا اویس شیخ، اور پرویز شیخ جاں حق ہوئے. تا ہم ابھی تک واقعہ کا مقدمہ درج نہ ہو سکا ہے. سندھ میں محکمہ روینیو کی وجہ سے جھگڑے عام ہو رہے ہیں. جبکہ پولیس کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہی ہے. سندھ میں جتنے بھی زمینوں پر قبضہ، اغوا برائے تاوان، قبائلی دہشتگردی میں انسانیت کی موت ہو رہی ہے اس کے پیچھے حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سردار وڈیرے، جاگیردار، منتخب نمائندے اور کمدار ملوث ہیں. تین سال قبل میہڑ میں آم رباب چانڈيو والد چچا اور دادا کو قتل کیا گیا جس میں حکمران جماعت پیپلز پارٹیکے دو رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈيو اور برہان خان چانڈيو کو کیس میں نامزد کیا گیا. ملیر ضلع میں ایک نوجوان ناظم جوکھیو کو اغوا کرکے بنگلے میں تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا. جس کا مقدمہ پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس اور ایم این اے جام عبدالکریم کے خلاف درج کیا گیا ہے. لاڑکانہ کے قریب قمبر میں زمین کے تنازع پر رکن سندھ اسمبلی گھنور خان اسرار اور اس کے والد غلام شہید اسرار نے فائرنگ کی گولیاں قرآن پاک کو شہید کرتے ہوئے منتیں کرنے والی فہمیدہ سیال کو لگیں اور خاتون موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی. لاڑکانہ کی میڈیکل کالج میں دو طالبات کی لاشیں ملیں. یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق بچیوں نے خودکشیاں کی ہیں. جبکہ لمس کی رپورٹ کے مطابق دونوں بچیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے اور رپورٹس کے مطابق ایک ہی شخص نے دونوں کے ساتھ زیادتی کی ہے. ملزم کوئی بااثر ہے شاید اس وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ اسے بچانے کی کوشش کر رہی ہے. یہی وجہ ہے کہ وی سی کو جبری چھٹی پر بھیجا گیا ہے. نئوکوٹ کے علاقے میں دو بچیوں اغوا کرکے گاوں میں ننگار گھوما کر لوگوں کی جانب سے ریپ کیا گیا ہے. جس واقعے میں بھی بااثر افراد ملوث پائے گئے ہیں. نوشہرہ فیروز کے علاقے محرابپور میں کاوش اور کے ٹی این نیوز کے رپورٹر عزیز میمن کا گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا. مقتول نے قتل سے قبل پیپلزپارٹی کے ایم این اے سید ابرار شاہ کے خلاف اسلام آباد تک دہمکی ملنے کے خلاف احتجاج کیا تھا. صالح پٹ کے مقتول صحافی اجی کمار لالوانی قتل کیس میں بھی پیپلز پارٹی کے لوگ ملوث پائے گئے تھے. مطلب سندھ میں جہاں امن امان کی صورتحال خراب ہے، اس میں براہ راست حکمران جماعت ملوث ہے. سندھ میں پولیس کو کمزور کرکے حکم کا پابند بنایا گیا ہے. جب تک کوئی ایم این اے یا ایم پی اے این او سی نہی دے گا تب تک اس ضلع میں کوئی ایس ایس پی یا ڈی ایس پی نہی لگ ستا ہے. سندھ کے عوام پہلے بوکھ، بدحالی، بیروزگاری کی وجہ سے سخت اذیت کا شکار ہے، وہیں پر قبائلی دہشتگردی کی وجہ سے زندگی اجیرن بنائی گئی ہے. تعلیم، صحت، زراعت، معیشت، امن امان تباہ ہو چکا ہے. سپریم کورٹ کو چاہیے کہ سندھ میں زمینوں کے تنازع، قبائلی دہشتگردی، قتل و غارت اغوا برائے تاوان سمیت کرائم میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور عام لوگوں کو تحفظ فراہم کرکے ان کی جان مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے. سندھ میں قبیلائی دہشتگردی میں بیگناہ لوگ مارے جاتے ہیں. زمینوں، موروثی ملکیت، پلاٹ کے تنازع پر شروع ہونے والے جھگڑے خونی تکرار میں تبدیل ہوجاتے ہیں. جس میں خاندان یا رشتہ دار اپنی جگہ مگر کوئی قومیت کا بندہ کہیں پر بھی مل گیا اس کو ماردیا جاتا ہے. جس کا نہ کوئی جرم نہ کوئی لینا دینا. 90 فیصد زمینوں کے تنازع پر جھگڑوں، قتل و غارت، اغوا برائے تاوان میں بااثر سرادر جاگیردار، وڈیرے اور منتخت نمائندے ملوث پائے گئے ہیں، مگر افسوس کہ ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے.
سندھ میں سردار جب فیصلہ کرتے ہیں تو قتل، قتل میں برابر کرتے ہیں. جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وقتی طور پر فریقین آپس میں صلح کرلیتے ہیں بعد میں پھر لڑائی شروع کردیتے ہیں. ہونا یہ چاہیے کہ فی قتل کی سزا دیت یہ رقم کم از کم 100 اونٹ کے برابر، 2 کروڑ روپے سے 3 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے. جب کوئی کسی کا قتل کرے گا اور بھاری جرمانے بھرے گا تو آئندہ کوئی بھی قتل کرنے کا سوچے گا بھی نہیں. عدالتوں میں قتل میں ملوث ملزمان کی ضمانت نہ دی جائے اور نہ ہی کمپرومائز ہونے دیا جائے. جب تک سخت اور بڑی سزائیں نہی دی جائیں گی تب تک لوگوں میں خوف ڈر پیدا نہی ہوگا اور لوگ جھگڑے سے باز نہیں آئیں گے. سندھ میں امن امان کی خراب صورتحال بہتر بنانے کیلئے پولیس کو بااختیار بنا کر سیاسی مداخلت ختم کی جائے پولیس کو ململ طور پر فری ہینڈ دیا جائے. سندھ میں اس وقت عوام کی زندگی بہت مشکل گزر رہی ہے۔(علی انس گھانگھرو)۔۔