تحریر: علی حسن۔۔
بلدیاتی ادارے بنیادی طور پر عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کا ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ تمام ایسے معاملات جن کا براہ راسست عوام سے تعلق ہوتا ہے، ان ہی اداروں کے ذریعہ حل ہوتے ہیں۔ ماضی میں تو پرائمری تعلیم، بنیادی صحت ، وغیرہ ان ہی اداروں کی ذمہ داری ہوا کرتے تھے ۔ پینے کا پانی، شہروں کی صفائی ستھرائی یہ ادارے ہی کرایا کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی کا مرحوم بھٹو کے دور سے مسلہ رہا ہے کہ وہ تمام اختیارات کو اپنی ہی مٹھی میں بند رکھنا چاہتے ہیں۔ مشرف کے دور میں جو قوانین بنائے گئے تھے اور نافذ کئے گئے تھے وہ اس لحاظ سے بہت بہتر تھے کہ لوگوں کے مسائل ان کے ہی شہروں میں حل ہو جاتے تھے ۔ لیکن پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی اس قانون سے اس لئے مطمعن نہیں تھے کہ اختیارات خصوصا ترقیاتی فنڈ کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں نہیں رہے تھے ۔ وفاقی حکومت براہ راست ضلعی حکومت کو فنڈ مہیا کیا کرتی تھی اور صوبائی حکومت کا کوئی سرو کار نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی والوں کو یہ ہی پسند نہیں ہے۔ ابھی بھی یہ ہی ہوگا کہ میئر ہو یا چیئر مین، وہ صوؓائی حکومت کے کسی سیکشن افسر کے عملا ماتحت ہوں گے۔ حیدرآباد کے ایک سابق میئر مرحوم آفتاب شیخ کے الفاظ میں کہ ہماری ہر اسکیم سیکشن آفیسرکے ا نگوٹھے کے نیچے رکھی ہوئی ہوگی۔ پیپلز پارٹی یہ ہی چاہتی ہے کہ بلدیاتی ادارے سیکشن افسران کے ماتحت ہوں۔ سیشن افسران محکمہ بلدیات کے وزراءسے احکامات حاصل کیا کریں۔ بلدیاتی اداروں کے منتخب چیئر مین یا میئر خود مختار نہ ہوں۔ بلدیاتی ادارے سیاست دانوں کی بنیادی تربیت گاہیں بھی قرار دی جاتی ہیں جہاں مستقبل کے سیاست دان تربیت پاتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر سیاست دان ان ہی اداروں کے تربیت یافتہ ہیں۔ پوائنٹ آف آرڈر، سوالات کا وقت اور دیگر طریقوں کا علم ان ہی اداروں سے ہوتا ہے۔ سندھ میں حکمران جماعت نے ان اداروں کو بھی پوری طرح اپنی گرفت میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اسی لئے تمام بلدیاتی اداروں میں اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ ان میں پارٹی کے بڑے رہنماﺅں نے اپنے بیٹوں ، بھائیوں اور رشتہ داروں کو بھی متعارف کرا یا ہے۔ لاڑکانہ میں سابق وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے چھوٹے بھائی شاہ رخ خان سیال چیئرمین منتخب ہوگئے جبکہ سکھر میں خورشید شاہ کے فرزند زیرک شاہ کامیاب قرار پائے۔ اکثر آراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے رشتہ دار بھی بلدیاتی اداروں کے کونسلر منتخب ہونے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا شمار بلا مقابلہ منتخب ہونبے والے کونسلروں میں ہوتا ہے۔ البتہ لاڑکانہ میں عوامی اتحاد نے پیپلز پارٹی کو سخت صورت حال سے دوچار کیا، لاڑکانہ ٹاﺅن کمیٹی باڈہ پر پیپلزپارٹی کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔عوامی اتحاد14میں سے8نشستوں پرکامیاب جبکہ پیپلزپارٹی6نشستیں لے سکی۔ اسی طرح نواب شاہ میں بھی صورت حال پیپلز پارٹی کے لئے پھولوں کا سیج ثابت نہیں ہوئی۔ عام لوگوں کے لئے اول تو گنجائش ہی کم چھوڑی گئی اور جہاں عام لوگوں نے امیدوار بننے کی جسارت کی انہیں پارٹی رہنماﺅں ، کارکنوں، اور پولس کے دباﺅ کا سامنا رہا۔ اس ماحول میں سکھر میں ایک سبزی فروش، خیر پور میں گدھا گاڑی چلانے والے کی بیٹی، قمبر میں عوامی ورکرز پارٹی کی خاتوں امیدوار فوزیہ سنگھار نے ہمت کی۔ خیر پور والی خاتون تو کامیاب ہو گئیں۔ جنرل کونسلر کی نشست پر ڈینٹنگ پینٹنگ کا کام کرنے والے انور یوسفزئی بھی کامیاب ہو ئے ہیں ۔ صرف جے یو آئی ف ہی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے سکھر میں ہندو برادری کے چار افراد کو جنرل سیٹوں پر امیدوار نامزد کیا تھا جن میں سے دو کامیاب ہو گئے۔
صوبہ سندھ میں بلدیاتی اداروں کے لئے نمائندوں کے انتخاب کا پہلا مر حلہ جیسے تیسے مکمل ہوگیا ہے۔ 14 اضلاع جن میں گھوٹکی، سکھر، خیرپور، جیکب آباد، کشمور، قمبرشہدادکوٹ، لاڑکانہ، شکارپور، نوشہروفیروز، شہید بینظیر آباد، سانگھڑ، میرپورخاص،عمرکوٹ اور تھرپارکر شامل ہیں انتخابات ہوئے ہیں۔ 14 اضلاع میں ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 14 لاکھ 92 ہزار680 تھی اور ان تمام اضلاع میں 5 ہزار 331 نشستوں پر 21 ہزار298 امیدواروں میں مقابلہ تھا، جب کہ 946 نشستوں پر امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں۔ اتنے بڑے انتخابی عمل کے دوران ہنگامے بھی ہوئے۔ دو افراد قتل بھی ہوئے جن میں ایک تو تحریک انصاف کے امیدوار ظفر گنڈا پور کا بھائی قیصر گنڈا پور تھا۔ قیصر کو مخالفین نے اینٹین اور پتھر مار کر ہلاک کر دیا۔ تمام اضلاع میں پولس مستعد تھی لیکن بد انتظامی کی کئی وجوہات میں یہ بھی شامل تھا کہ مختلف اضلاع بشمول کراچی سے ڈیوٹی پر لائے گئے پولس والوں کو کہیں کھانا میسر ہوا تو کہیں پانی میسر ہی نہیں ہوا۔ انہیں جو دلچسپی دکھانا چاہئے تھی اس کی کمی تھی۔ پولیس کے 26 ہزارسے زائد اہلکار و افسران سیکیورٹی پرتعینات کئے گئے تھے ، 3 ہزار رینجرز اہلکار بھی انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن پر تعینات تھے۔پھر الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے لئے جو شیڈو ل ترتیب دیا تھا انہیں شائد یہ احساس ہی نہیں رہا کہ جون کا مہینہ شدید گرمی کا مہینہ ہوتا ہے۔ جس میں سیکورٹی ڈیوٹی دینا، انتخابی ڈیوٹی انجام دینا اور ووٹ ڈالنے کے لئے آنا مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں شیڈول تیا رکرنے والے افسران حضرات تو بہترین ایئر کنڈیشن میں بیٹھے ہوئے ہوں گے اس لئے انہیں الیکشن کرائے جانے والے اضلاع میں موسم کی سختی کا ذرہ برابر احساس ہی نہیں تھا۔ بر صغیر میں انتخابات کے موقع پر ہنگامے ، قتل کی وارداتیں وغیرہ عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ کشمور ضلع کے علاقے کند ھکوٹ میں ڈاکوﺅں نے ایک پولنگ اسٹیشن پر حملہ کر دیا اور عملہ ، الیکشن کا سامان بمعہ بیلٹ پیپر لے کر فرار ہو گئے۔ عجیب بات تھی کہ جس پولس اسٹیشن پر حملہ کیا گیا وہاں دونوں امیدواروں کا تعلق بھیو قبیلہ سے تھا اور ڈاکوﺅں کے سردار کا تعلق بھی بھیو قبیلہ سے ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایک ہزار 985 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس قرار دیئے تھے ، اسلحہ کی نمائش پر دفعہ 144 نافذ کی گئی، جب کہ پولنگ اسٹیشن کی نگرانی کے لیے 3 ہزارسے زائد کیمرے نصب کئے گئے تھے ۔
سابق میئر کراچی وسیم اختر کا مطالبہ ہے کہ پورے اندرونِ سندھ کا الیکشن روکا جائے، تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کے عمل پر سوال اٹھا رہی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی نے کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ساری دھاندلی پولیس، الیکشن کمیشن اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا ۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہ کب اور کیسے بدلے گا؟ جب قانون کی پاسداری کی قسم کھانے والے خود ہی قانون توڑ رہے ہوں گے۔ پیپلز پارٹی نے دھاندلی مچائی ہوئی ہے۔ امیدواروں کو گرفتار کیا گیا، الیکشن کالعدم قرار دیا جائے، یہ الیکشن کوئی نہیں مانے گا۔ جمعیت علماءاسلام (ف) کے مرکزی ترجمان اسلم غوری نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے، سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ تشدد اور دھاندلی کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ صوبائی انتظامیہ نے جانبدارانہ کردار ادا کر کے بلدیاتی الیکشن پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔اللہ اکبرتحریک کے مرکزی صوبائی صدر فیصل ندیم نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ہونے والے پر تشدد واقعات اور دھاندلی پر کہا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن پرامن اور شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہے ہیں ۔پولیس اور قانون نافظ کرنے والے ادارے سیکیورٹی کے انتظامات کرنے میں ناکام اور بے بس نظر آئے ۔ ہم اس تمام الیکشن کے عمل کو مسترد کرتے ہیں جو کے دھونس دھاندلی پر مشتمل تھا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے صاف شفاف تحقیقات کرا ئی جائے ۔ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات پ ±رامن ہوئے، تاہم بدامنی کے صرف ایک دو واقعات پیش آئے ہیں ۔ جو پارٹی الیکشن ہار رہی ہوتی ہے وہ دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔ دو چار واقعات کو بنیاد بنا کر پورے انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان بتائے کن کن پولنگ اسٹیشنز پر دھاندلی ہوئی، ان پر دوبارہ پولنگ کروالیتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں غیرمعمولی کارکردگی پرمبارک دی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عوام نے پرامن، ترقی پسند اور خوشحال سندھ کا انتخاب کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام نے نفرت، تقسیم، مذہب اور قومیت کی سیاست کو مسترد کردیا ہے۔ (بہ شکریہ جہان پاکستان)