سندھ میں پولیس کی جانب سے مختلف اضلاع میں 30 سے زائد صحافیوں کیخلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت 15 جھوٹے مقدمات کے اندراج کیخلاف پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے سندھ اسیمبلی کے اجلاس کے دوران پریس گیلری میں احتجاج کیا گیا۔ صحافتی آزادی کو صلب کرنے کیلئے پولیس کی جانب سے 7ata کے جھوٹے مقدمات کے ذریعے صحافیوں کو دہشتزدہ کرنے کیخلاف احتجاج کا نوٹس لیتے ہوے سینیئر صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاھ، وزیر توانائی امتیاز شیخ اور وزیر معدنیات میر شبیر حسین بجارانی نے پریس گیلری میں پہنچ کر صحافیوں سے مذاکرات کیئے۔ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر سید منور عالم، سندھ جرنلسٹس کونسل کے صدر غازی جھنڈیر، سنجے سادہوانی، متیاز چانڈیو، حمید سومرو، امتیاز مغیری و دیگر صحافیوں نے حکومتی وزرا کو بتایا کہ سندھ بھر میں چند پولیس افسران صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے انکے خلاف مسلسل جھوٹے مقدمات قائم کر رہے ہیں جن میں انسداد دہشتگردی، اغوا اور 9 سی جیسے سنگین الزامات بھی شامل ہیں۔ پولیس افسران نے سندھ کے مختلف اضلاع میں ذاتی انتقام کی بنیاد پر 30 سے زائد صحافیوں پر جھوٹی ایف آئی آرز درج کرنے کا نہ رکنے والا سلسلا شروع کردیا ہے ( بشمول صحافی مشتاق سرکی، عجیب لاکھو) جس سے صحافیوں میں سخت تشویش اور دہشت پیدا ہوگئی ہے۔ صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ بھر میں صحافیوں کیخلاف درج سنگین مقدمات کی شفاف انکوائری کیلئے ہائیکورٹ کے جج صاحبان سے عدالتی تحقیقات کرائی جائے اور جو پولیس افسران جعلی مقدمات میں ملوث ہیں انکے خلاف کارروائی کے ذریعے صحافتی آزادی کیخلاف پولیس گردی کی سازش کو ناکام کیا جائے۔ اس موقع پر صحافیوں نے یہ بھی واضع کیا کہ اگر شفاف انکوائری میں کوئی صحافی مجرم پایا جاتا ہے تو اسے قانون کی پکڑ میں لیا جائے۔۔ سندھ حکومت کی جانب سے صوبائی وزرا کی کمیٹی نے صحافیوں کو یقین دلایا کہ اس ضمن میں وہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاھ کو صورتحال سے آگاھ کرکے صحافیوں کو انصاف اور تحفظ فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائینگے۔
سندھ میں 30 صحافیوں کے خلاف مقدمات۔۔
Facebook Comments