تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔
سندھ میں بجلی کی بندش، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور سندھ میں گزشتہ 15 سالوں سے 90 فیصد علاقوں میں بجلی منقطع ہے. عید کے روز بجلی کی بندش اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر سوشل میڈیا پر پوسٹ رکھی تو کافی لوگوں نے کہا کہ آپ نے نفرت کے طور پر لکھا ہے، ایسا کچھ نہیں ہے. پھر سندھ کے ہر شہر سے بجلی کی بندش اور لوڈشیڈنگ کی پوسٹس نظر سے گزر رہی تھی. بعد میں پتا چلا پیپلزپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں شدید گرمی 51 سینٹی گریڈ ریکارڈ گرمی اور عید کے موقع پر گزشتہ چار روز سے بجلی بند کردی گئی تھی. پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف سے کسی نے بھی کوئی نوٹس نہ لیا، عوام گرمی میں تڑپ رہی تھی، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری، فریال ٹالپر، خورشید جوڻيجو، آفتاب شعبان میرانی، نثار احمد کهڑو سمیت کسی نے کوئی کوشش نہیں کی کہ بجلی کیوں بند ہے، برادرم مولانا راشد محمود سومرو نے نوٹس لیا، وزیر اعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر سے رابطہ کیا اور بجلی کی بندش کے بارے میں آگاہ کیا، شکر ہے کہ سومرو صاحب نے آواز اٹھائی، ورنہ گونگی بھری آنکھوں سے نابینا عوام کا کوئی پرسان حال نہیں. میں نے بعد میں مولانا راشد محمود سومرو صاحب سے رابطہ کرکے کہا کہ لاڑکانہ کے ساتھ سندھ بھر کا یہی حال ہے. منتخب نمائندے خود بجلی چوری کی استعمال کرتے ہیں بل ادا نہیں کرتے ہیں اور سزا سندھ کے غریب عوام کو دی جا رہی ہے، آپ دوبارہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب سے سندھ بھر کیلئے آواز اٹھائیں انہیں بتائیں کہ سندھ کے چھوٹے علاقوں شہروں دیہات میں اب بھی بجلی نہیں ہے، ٹرانسفارمرز اتارے گئے ہیں، بجلی کے پول اتارے گئے ہیں، بجلی کی تاریں اتاری گئی ہیں. یہ حال ہے سندھ کا لاڑکانہ کا، حقیقت کو دیکھا جائے تو عوام کے ساتھ بلکل درست کر رہے ہیں، سندھ کے لوگ جب تک آنکھیں نہیں کھولیں گے ووٹ کا درست استعمال نہیں کریں گے، تب تک ظلم سہتے رہیں گے، پھر پانچ سال تک روتے رہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ سندھ کے حکمران بھی سندھ کے ساتھ مخلص نہیں ہیں سندھ میں بجلی کی بندش لوڈشیڈنگ اور لاڑکانہ میں بجلی بحال نہ ہونے پر مولانا راشد محمود سومرو کی وزير اعظم شہباز شریف سے دو مرتبہ رابطہ کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی نوٹس لے لیا ہے، وزیر توانائی امتیاز شیخ کی سیپکو چیف سکھر کے ساتھ دورہ، چار روز تک سب خاموش تھے، بجلی کی بحالی کا کام شروع نہ ہو سکا، راشد محمود سومرو کے وزیر اعظم سے شکایت دو مرتبہ نوٹس کے بعد آصف علی زرداری کا نوٹس اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا لاڑکانہ اور سندھ کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے، سکھر لاڑکانہ سمیت سندھ بھر میں تمام سیپکو افسران حکمران جماعت کے لاڈلے ہیں، اور ان کے ایجنڈے پر ڈیوٹی کر رہے ہیں. عید قربان کے دو روز بچوں کے ساتھ گاؤں میں گزارے، گھر والے بچے بڑے شوق سے عید کرنے گاؤں روانہ ہوئے. سکر سے جنوب کی طرف تاریخی طور پر مشہور قلعہ اروڑ کے قریبی علاقے کندھرا میں واقع ہمارا چھوٹا سا گاؤں ہے جو کہ باغ فتح علی شاہ کے نام سے مشہور ہے. پاکستان بننے کے بعد اب تک بنیادی سہولیات سے ہمارے گاؤں سمیت ارد گرد کے تمام دیہات آج بھی نہ صرف بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، بلکہ وہاں کے علاقہ مکین جدید دور میں بھی بدترین جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. بمارے گاؤں سمیت سندھ کے تمام دیہات بدقسمتی سے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے محروم ہیں. آج بھی ہمارے گوٹھ سمیت سندھ کے 90 فیصد گوٹھوں میں گیس کی سہولت تک موجود نہیں ہے. جبکہ گیس کی کراچی جانے والی گیس لائن صوبائی ہیڈکوارٹر سکھر میں ہے. مین لائن ہمارے گاؤں کے عقب سے گزرتی ہوئی کراچی تک جاتی ہے. یہاں کے لوگ آج بھی پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے مضر صحت پانی استعمال کرنے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اے بی سی کا شکار ہو رہے ہیں. آبادی کے حساب سے ہر پانچواں شخص ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہے. جبکہ گوٹھوں میں سوئی گیس کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے 100 فیصد خواتین گھروں میں لکڑیوں پر آگ جلا کر کھانا پکاتی ہیں. یہ کھانا پکانا کس طرح مشکل ہوتا ہے ان سے کوئی پوچھے، سخت گرمی میں کیسامشکل کام ہے. گاؤں کی خواتین سخت گرمی سردی میں لکڑیوں پر کھانا پکاتے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے سانس سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر رہ جاتی ہیں. جبکہ دیکھا جائے تو ملک میں گیس کی 50 فیصد سے زائد پیداوار سندھ سے ہوتی ہے. اور بدلے میں سندھ کے گاؤں گوٹھوں کوگیس نہیں دی جاتی ہے. جو کہ بنیادی آئینی اور شرعی حق بھی ہے.۔ گیس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ شہروں میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو اکثریت غریب عوام کی ہے وہ کہاں جائیں.؟ سندھ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا بڑا مسئلہ ہے. شہروں کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو گوٹھ گاؤں میں عوام کو جدید دور کے باوجود بجلی کی نعمت سے محروم رکھا ہوا ہے. رمضان المبارک کا ماہ ہو یا عید قربان ہو. 12 ربیع الاول ہو محرم الحرام کا ماہ ہو لیکن بجلی نہی ملے گی. سال بھر کے حساب سے 3 ماہ بھی مشکل بجلی چل رہی ہوتی ہے. بلپ پنکھا چلانے والے غریب کسانوں ہاریوں پر لاکھوں روپے کی ڈڈیکشن لگائی جاتی ہے. نہ وہ بل ادا کر سکتے ہیں نہ ان کو سال بھر بجلی مل سکتی ہے. اس گرمی سردی میں بھی سبے زیادہ خواتین کو ہی بھگتنا پڑتا ہے. گاؤں گوٹھوں کے لوگ محنتی و محنت کش اور مزدور قسم کے لوگ ہوتے ہیں جن کی آمدنی دیکھی جائے تو ان کا گزارہ بھی مشکل ہوجاتا ہے. مگر کے بچوں کو معیاری تعلیم تک میسر نہیں۔ غریب بچے اسکول جانے کے بجائے زمینوں پر اپنے والدین کے ساتھ ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں. ان بچوں کو تعلیم تو دور کی بات ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی نہیں ہوتی. علاج معالج ادویات تک نہیں ملتی ہے. غریب جب بیمار ہوتا ہے تو وہ نجی ہسپتالوں میں جانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا. سرکاری ہسپتالوں میں انہیں علاج نہیں ملتا مجبوراً وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں. سکھر سمیت سندھ بھر میں لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے. لوگ جانوروں کے ساتھ جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو تے ہیں. جبکہ دیکھا جائے تو ہمارے لیے یہ ہی لوگ گندم، چاول، جو، سبزیاں کاشت کرتے ہیں اور فروٹ اگاتے ہیں. اتنا مشقت والا کام کرنے کے باوجود نہ انہیں وہ اجرت ملتی ہے نہ کوئی سہولیات میسر ہوتی ہے. عید کے پہلے دن ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا. سکھر کے دیہات میں عید کے پہلے روز گرمی پارہ 50 تک تھا، جس کی وجہ سے حبس اتنا تھا کہ جان جا رہی تھی. میرے چھوٹے بچے بار بار اصرار کر رہے تھے کہ اے سی چلائیں. ہم تو انہی تسلی دے رہے تھے کہ بجلی آنے والی ہے بس گرمی ختم ہو جائے گی. شہر میں رہنے والے بچوں کو کیا بتائیں کہ یہاں تو ایئر کولر یا پنکھا ہی چل جائے وہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے. سولر کی پلیٹ پر 12 وولٹ والا پنکھا تو چل رہا تھا مگر اتنی کہ وہ بھی کسی کام ہی نہیں تھا. ہم جب شہروں میں رہنے کے باوجود کبھی کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے یا گیس پر یشرکم ہوجاتا ہے یا پینے کا پانی ایک دو روز بند ہوجاتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے قیامت برپا ہو کر رہ گئی ہو مگر یہ بنیادی سہولیات اگر سال بھر گاؤں میں نا بھی ہو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا. گاؤں کے لوگ ہمارے لیے چاول، گندم، سبزیاں، فروٹ، اور دیگر کھانے کی اشیاء اگاتے ہیں. جانور پالتے ہیں اور دودہ دہی مکھن تک تیار کرتے ہیں. اس کے باوجود ان کو کیا ملتا ہے. سال کے 12 مہینے ان کو پہننے کیلئے جسم ڈھانپنے کیلئے کپڑا تک نہیں ہوتا. رہنے کیلئے کچی چھت ہوتی ہے. اور روڈ راستے تو نہ ہونے کے برابر ہیں. کچے راستے اگر بارش ہوجائے تو آنا جانا مشکل ہوجاتا ہے. ان دیہات گاؤں کو بنیادی سہولیات تک نہیں دی جا رہی ہیں. اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے دیہات گاؤں صاف ستھرے ہیں، ایسے لگتا ہے کہ جیسے فارم ہاؤس ہوں، مگر جب سہولیات نہ ہوں تو یہ گاؤں آپ کو کھانے آ جاتے ہیں. آپ ایک دن یا رات بڑی مشکل سے گزارتے ہیں. دوسری اور اہم بات امن امان کی صورتحال خراب ہونا ہے. جتنا امن امان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کا رونا شہروں میں رویا جاتا ہے، اس سے زیادہ صورتحال دیہات کی خراب ہوتی ہے. جہاں وڈیروں سرداروں اور منتخب نمائندوں کا راج قائم ہوتا ہے. عوام کو اگر تحفظ فراهم کیا جائے اور ساتھ میں بنیادی سہولیات جو ہمارا آئین قانون دیتا ہے اگر وہ فراہم کی جائیں تو یقیناً گاؤں کی دنیا ہی نرالی ہے اور پرسکون. مگر جب بنیادی سہولیات ہی نہ ہوں تو وہ ہی گوٹھ گاؤں کھانے کو آجائے ہیں. حکومت وقت کو چاہیے کہ فزیکلی طور پر محنت مشقت کام کرنے والے مزدور لوگوں کو ان کے در پر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ بھی سکون کی زندگی گزار سکیں. امید ہے کہ جب ہم اگلی بار گاؤں جائیں گے تو ہمیں رہنے میں کوئی مشکلات نہیں ہوگی. اسی طرح پورے ملک کے دیہات کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔(علی انس گھانگھرو)