تحریر: علی انس گھانگھرو
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ صاحب نے جسٹس آفتاب احمد گورڑ کے ریٹائرڈ ہونے پر فل پینچ تشکیل دیا۔ اور کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا بہادر اور غریب پرور شخص نہی دیکھا جنہوں نے ہمیشہ انصاف کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آفتاب احمد گورڑ نے کبھی بھی طاقتور لوگوں کے آگے نہ کھلے نہ بکے نہ ہی کمپرومائز کیا۔
جسٹس آفتاب احمد گورڑ اپنے گورڑ قبیلے کے سردار ہیں۔ فرسٹ جنوری 1961 کو لاڑکانہ کے قریب نواحی علاقے میں غلام رسول گورڑ کے گھر میں آنکھ کھولی۔ 1975 میں میٹرک کیا 1980 میں بی اے کرنے کے بعد 1985 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ 1987 میں اکنامکس میں ماسٹر کیا۔ 10 ستمبر 1989 کو لوئر کورٹ میں انرولمنٹ کرائی۔ 27 اکتوبر 1991 کو ہائی کورٹ کے لئے انرولمنٹ کرائی گئی۔ 6 اکتوبر 2008 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بن گئے۔ جسٹس افتخار احمد گورڑ 27 جون 2012 کو سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس بن گئے اور 31 دسمبر 2022 کو رٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ ان دس سالوں میں وکالت کے تجربات زمینی حقائق، سندھ کے اتر، لاڑ، کراچی سمیت سندھ بھر میں چپے چپے کی جان پہچان سے واقف جسٹس صاحب نے ہمیشہ قانون آئین کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف کا بول بالا رکھا۔
حقیقت کو دیکھا جائے تو جب ادارے کام نہیں کریں گے، افسران کامورا شاہی کام کرنے کے بجائے سارا دن کرپشن کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں تو عوام کتوں کے رحم و کرم پر آجاتی ہے۔ آپ نے ہمیشہ پبلک انٹرسٹ میں فیصلہ دے کر قانون اور انصاف کی رٹ کو برقرار رکھا ہے۔ آپ نے جسٹس کے فرائض بہترین نمونے سرانجام دیے ہیں، اور دیتے آ رہے ہیں۔ سندھ میں ماکڑ مار مہم، پاگل کتا مار مہم، محکمہ جنگلات کے زمینوں پر قبضہ، ایریگیشن کے زمینوں پر قبضہ، ریونیو کالونیوں پر قبضہ، قبرستانوں پر قبضہ، تعلیم، صحت، ہیپاٹائٹس، سمیت اہم ایشوز پر کیسز میں فیصلہ دے کر عوام کے ساتھ انصاف کیا ہے۔
سندھ بھر میں کتے کاٹنے جیسے اہم کیس میں رتو دیرو اور جامشورو کے دو رکن اسمبلی کی رکنیت معطل کر کے انہیں احساس دلایا ہے کہ جس لوگوں سے ووٹ لے کر اقتدار میں کراچی بیٹھ جاتے ہو، ان غریب لوگوں کی حفاظت بھی آپ کی ذمہ داری ہے، کتوں کے زہر کی بجٹ بھی استعمال نہی ہوتی بلکہ ہڑپ ہو جاتی ہے، معصوم بچے کتوں کے کاٹنے سے یا تو مر رہے ہیں یا معذور /اپاہج بن جاتے ہیں۔ ایسے فیصلوں کے بعد سینیئر جج جسٹس آفتاب احمد گورڑ پر سندھ حکومت نے بے اعتمادی ظاہر کردی تھی۔جسٹس صاحب کے خلاف ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سرکار کی جانب سے چیف جسٹس آف سندھ کے پاس درخواست دائر تھی کہ سندھ حکومت کے جتنے کیسز ہیں جسٹس صاحب سے واپس لئے جائیں۔ اور کتوں کاٹنے کے کیس کراچی لارج بینچ میں منتقل کیے جائیں۔ کیا ایسا ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان بھی سندھ حکومت کے ایجنڈے اور ڈائریکشن پر چلیں؟ یہاں آئی جی سندھ حکم نہیں مانتا تو تبدیل کرو، کوئی سیکرٹری غلط کام نہی کرتا تو معطل کردو، اب جسٹس صاحب صحیح کام کر رہے ہیں تو کیس واپس لو۔ سندھ سرکار کی خواہش ہے کہ عدلیہ ان کے پیرول پر چلے ایسا تو نہیں ہوتا کسی بھی ملک میں۔
ایک مرتبہ انکروچمنٹ کیس کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ انٹر پارک ان ہوٹل سمیت نجی حرا ہاسپٹل اور سنیتا ہاسپٹل کو گرانے کا حکم دیا تو سکھر انتظامیہ اس وقت کے محکمہ ایریگیشن، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی سکھر نے ایک با اثر سیاستدان کے کہنے پر سکھر میں کنالوں پر قائم 17 مساجد کو بلڈوز کر دیا۔ مذہبی جماعتوں اور شہریوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ عدالت میں مولانا راشد محمود سومرو فریق بن کر پیش ہوئے تو پتا چلا کہ عدالت نے تو ایسا کوئی حکم ہی نہیں دیا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ ایک منتخب نمائندے کے کہنے پر سب کچھ کیا گیا۔ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو جذباتی بنایا جائے تاکہ عدالت کے خلاف احتجاج ہو اور آپریشن رک جائے۔ لیکن جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے تمام سازش کو بے نقاب کر دیا۔
سندھ کیوں ڈوب گیا؟
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس آفتاب احمد گورڑ جب دریائے سندھ کے کناروں، نہروں اور کنالوں پر قبضے ختم کروا رہے تھے اور کچے کی زمینوں پر قبضے ختم کر وا رہے تھے تو سندھ حکومت سمیت اکثریت ان کے خلاف تھی۔ انہوں نے سندھ کے ڈپٹی کمشنرز کو حکم دیا کہ کنالوں پر قائم قبضہ ختم کرائے جائیں مگر عمل نہ ہو سکا، آپ نے وکیل سہیل میمن کی درخواست پر قبرستانوں سے قبضے ہٹانے کا حکم دے کر عمل درآمد کروایا۔ اہم کیسز میں حکومت رکاوٹ بنی اور اس پر عمل درآمد نہ ہوا، مقدمات کراچی منتقل ہوئے لیکن ایک فیصلے پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا، جسٹس آفتاب احمد گورڑ کے فیصلوں پر تنقید اور مخالفت ہوئی، بدقسمتی سے سندھ حکومت اور محکمہ ریونیو نے ان کے فیصلوں پر عمل نہیں کیا، آج سندھ آپ کے سامنے ہے، آج بھی اگر سکھر میں اسی عہدے پر سینئر جسٹس ہوتے تو، وزیراعلیٰ سندھ، چیف سیکریٹری، وزیروں کو طلب کر سکتا تھا، ذمہ دار افسران کو بلایا جاتا۔ سیلاب متاثرین کے سامان کی صحیح تقسیم نہ کرنے والے منتخب نمائندے جیل میں قید ہوتے، منتخب نمائندے عدالت میں رسوا ہوتے، کچھ سلاخوں میں ہوتے، آدھے سے زیادہ منتخب نمائندوں کو اب تک معطل کیا ہوا ہوتا۔
جسٹس آفتاب احمد گورڑ صاحب نے کتوں کے حملوں میں ایک بچی کے جاں بحق ہونے اور دوسری بچی کی آنکھ ضائع ہونے پر پیپلز پارٹی کے دو ایم پی ایز فریال تالپور اور گیان چند ایسرانی کو معطل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ جسٹس آفتاب گورڑ صاحب کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے دونوں ایم پی ایز کو بحال تو کیا گیا لیکن کسی ادارے نے جج صاحب کو ملنے والی دھمکیوں کا نہ کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی کسی کو نوٹس جاری کیا۔ جسٹس گورڑ صاحب نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا تھا کہ وزرا ہم پر راکٹ لانچر سے حملوں اور تنخواہیں بند کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، لیکن ہم نہ ڈرنے والے ہیں اور نہ ان کے ماتحت ہیں۔ کوئی راکٹ فائر کرے یا تنخواہیں بند کرے، کتوں کا کیس تو ضرور چلے گا۔
گھوٹکی میں پولیس کی شہادت پر ایک کیس میں ریمارکس دیے کہ پولیس کا مٹھی بھر ڈاکوؤں پر کنٹرول نہیں ہو پا رہا۔ لوگ مر اور لٹ رہے ہیں۔ ڈاکوؤں کے دو گروہوں کی لڑائی میں مرنے والوں کی لاشیں خرید کر پریس کانفرنس کر کے کریڈٹ لیا جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ کندھ کوٹ دریا پر پل بننے پر ڈاکو پیسے لے رہے ہیں۔ سب اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں، جسٹس صاحب نے بار سے اپنے خطاب میں کہا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا ہوں، ڈرتا ہوں تو صرف اللہ پاک سے اور جھکتا صرف اللہ پاک کے آگے ہوں۔ سب فیصلے آئین کے مطابق دیے ہیں۔
کچھ معاملات انتظامی ہوتے ہیں اور ان کو بہتر کیا جاسکتا ہے، لیکن انتظامی ادارے ان معاملات اور مسائل کو بہتر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر بلدیاتی ادارے، ضلع انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، محکمہ جنگلات، محکمہ تعلیم وغیرہ وغیرہ،
ان اداروں کا اللہ ہی حافظ ہے، لیکن جسٹس آفتاب احمد نے شاباش ہے اداروں کے سربراہان کو گھری نیند سے جگایا، عوام کو درپیش وہ مسائل جنہیں انتظامی طور پر حل کیا جاسکتا تھا ان مسائل کو حل کرنے کے لیے عدالت نے ایکشن لیا اور عوام کو ریلیف دلایا۔ با اثر افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی، کرپشن افسر شاہی کے گرد گھیرا تنگ ہوا، لیکن ظاہر ہے ایکشن کا ری ایکشن تو آنا ہی تھا اور وہ ایوانوں سے آ رہا ہے عدالت کے معزز جج صاحبان حکومت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے ہیں۔ لیکن جسٹس آفتاب صاحب اکیلے نہیں ہیں بلکہ سندھ کی سلجھے ہوئی عوام آپ کے ساتھ رہی تھی۔ آپ کے ساتھ کھڑے ہیں آپ کے فیصلوں کی قدر کرتے ہیں کیونکہ آپ نے غریب عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں کچھ بڑے لوگ بھی لپیٹ میں آ گئے ہیں،
راکٹ لانچر کی دھمکیاں:ایک مرتبہ ہم کورٹ میں رپورٹنگ کر رہے تھے کہ فاروق ایچ نائیک ایک کیس کے سلسلے میں عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے ریمارکس دیے کہ مجھے حکومتی لوگوں نے راکٹ لانچر سے مارنے کی دھمکیاں بھیجیں۔ کیا حکومتی لوگ کچے کے ڈاکو منیر مصرانی، قادو سرگانی یا نظرو ناریجو بن گئے ہیں جو سندھ ہائی کورٹ کے سینیئر جسٹس کو راکٹ لانچر سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جسٹس آفتاب احمد ڳورڑ کو وزرا کی جانب سے راکٹ لانچر فائر کرنے کی دھمکیاں دینے کا مقصد سندھ میں دیگر اداروں کی طرح جوڈیشری کو بھی تابع بنانے کی ناکام کوشش ہے۔ایک مرتبہ قتل کیس کے ملزمان کی گرفتاری کے لئے دائر درخواست پر جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے ریمارکس دیے کہ پولیس افسران نے پولیس کا مورال گرا دیا ہے، جان بوجھ کر اپنے اہلکار شہید کرا رہے ہیں۔ پہلے ڈاکو پولیس سے ڈرتے تھے، اب پولیس ڈاکوؤں سے ڈرنے لگی ہے۔ جو پولیس اپنا تحفظ نہیں کر سکتی وہ عوام کی کیا حفاظت کرے گی۔ پولیس میں موجود کالی بھیڑیں ڈاکوؤں سے ملی ہوئی ہیں، آپریشن سے قبل اطلاع دی جاتی ہے۔
سندھ کے باضمیر اور بہادر جج جسٹس آفتاب احمد گورڑ ریٹائر ہو رہے ہیں، کاش! جسٹس صاحب سپریم کورٹ پہنچ جاتے لیکن ماضی میں سندھ ہائی کورٹ میں آپ کا انصاف عدالت پر مبنی تھا، تاریخ آپ کو صدیوں تک یاد رکھے گی۔ سندھ میں معصوم بچوں کو کتوں کے کاٹنے کا فیصلہ، آپ نے رکن سندھ اسمبلی کو معطل کر دیا۔ با اثر ارکان اسمبلی، ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کرائے، کتے کے کیس میں عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا۔ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں سانپ کے کاٹنے اور کتے کے کاٹنے کی ویکسین کی دوائی فراہم کی، وزیراعلیٰ اور کابینہ کے سیکرٹریز کی تنخواہیں روکیں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے معاملے پر متعلقہ محکمے، منتخب نمائندے آپ کی عدالت میں پیش ہونے سے گھبراتے تھے، آپ کسی مسیحا سے کم نہیں تھے، آپ نے قبرستانوں کی بحالی سے لے کر حدود و حرمت کو برقرار رکھتے ہوئے ہر فیصلہ قانون کے مطابق کیا۔ آئین اور انصاف، بہادری سے انصاف دینے پر آپ کو سلام۔(علی انس گھانگھرو)۔۔