تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔
’دی سمپسنز‘ امریکی کارٹون سیریز ہے جو1989 میں شروع ہوئی، یہ سیریز امریکی کلچر اور رہن سہن کی عکاسی کرتی ہے اور اِس میں ایک خاص قسم کا طنز ہے جس کی وجہ سے یہ ہر قسم کے ناظرین میں مقبول ہے ۔اصولاً مجھے سمپسنز کی مدح سرائی میں مزید دس بارہ سطریں لکھ کر اِس مضمون کا پیٹ بھرنا چاہیے لیکن میرا موضوع سمپسنز نہیں ہے ، موضوع یہ ہے کہ کیا اِس کائنات میں حادثات اتفاقیہ رونما ہوتے ہیں یا ہمارا ہر عمل اور رد عمل کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت لگا بندھا ہوتاہے ۔ویسے تو انسان اِس سوال کا جواب صدیوں سے تلاش کر رہاہے مگرتا حال کامیابی نہیں ہوئی البتہ کچھ لوگ ہمارے درمیان ایسے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف اِس سوال کا جواب جانتے ہیں بلکہ انہوں نےارشمیدس کی طرح اِس method in the madness کا راز پا لیا ہےسو اب وہ پانی کے ٹب سے برہنہ نکل کر نعرے لگاتے پھر رہے ہیں کہ ہم سے پوچھو، ہم بتائیں گے تقدیر اُمم کیا ہے!بات کوپیچیدہ کرنے کی بجائے سمپسنز کی مثال پر واپس آتے ہیں۔ اگر آپ گوگل پر لکھیں کہ سمپسنز کی وہ کون سی پیشں گوئیاں ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں میں درست ثابت ہوئیں توآپ کے سامنے بیسیوں ویب سائٹس کھل جائیں گے، مثلاً سمپسنز کی نائن الیون سے متعلق پیش گوئی ٹھیک ثابت ہوئی ، کووڈ 19 کا ذکر بھی سمپسنز نے کیا اور تو اورسمپسنزنے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدربھی بنوایا۔میں نےصرف تین مثالیں دی ہیں جبکہ انٹرنیٹ سمپسنز کی پیشں گوئیوں سے بھرا پڑا ہے۔کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ سمپسنز کے تخلیق کار غیر مرئی قوتوں کے مالک ہیں اور وہ مستقبل میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں، کیا مستقبل طے شدہ ہے؟ اگر یہ مثالیں سمپسنز کی بجائے کسی پہنچے ہوئے پیر فقیر کے آستانے سے برآمد ہوئی ہوتیں توہم اسے سنجیدگی سے لیتے لیکن یہاں چونکہ امریکی ٹی وی سیریز کا ذکر ہے اِس لیےہم اسے محض تیر تُکا یا اتفاق کہہ کر آگے بڑھ جائیں گے ۔سوال یہ ہے کہ کیا اتنی بڑی تعداد میں واقعات کی درست نشاندہی محض اتفاقیہ ہے ؟اِس سوال کاجواب بعد میں ،پہلے کچھ اور مثالیں دیکھتے ہیں!
آج کل ایک صاحب کا بہت چرچا ہے جو مائیک میں پھونکیں مارتے ہیں ، مصاحبین اُن پھونکوں کو اپنے اوپر محسوس کرتے ہیں اور جس بھی درد یا تکلیف میں وہ ہوتے ہیں ،بظاہر وہ دور ہوجاتی ہے۔یہ ’کرامات‘ صرف ہمارے ملک تک محدودنہیں ، ہندوستان میں بھی ایسے سینکڑوں بزرگ ہیں،ایک ویڈیو میں نے دیکھی جس میں ایک صاحب نوجوان لڑکیوں کو محض چھوتے تھے اور وہ کرنٹ کھاکر بے خود ہوجاتی تھیں اور پھر یوں لگتا تھاجیسےآناً فاناًاُن کی بیماری رفع ہوگئی ہو۔کچھ اور لوگ بھی ہیں جنہوں نے اِس کام میں سپیشلائزیشن کر رکھی ہے۔یہ لوگ زیادہ سمارٹ ہیں،یہ جانتے ہیں کہ آج کل کا پڑھا لکھا نوجوان اِس قسم کی شعبدےبازیوں سے متاثر نہیں ہوتا لہٰذا انہوں نے وہ راستہ اپنایاہے جو سمپسنز سے ملتا جلتاہے۔اُن کے نزدیک یہ کائنات اور اِس کا نظام خدا کے احکامات کے تابع تو بہرصورت ہے مگر اِس نظام میں تبدیلی ممکن ہے بشرطیکہ خدا کے بتائے گئے اصولوں کو سمجھ لیاجائےاور اُن پر کامل یکسوئی سے عمل کیاجائے ، اِس ضمن میں وہ قرآن کے حوالے بھی دیتے ہیں اور کچھ ایسے محیر العقول واقعات بھی سناتے ہیں جن پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔اِن لوگوں کے نزدیک کائنات کے طبعی اصولو ںمیں تبدیلی ممکن نہیں البتہ کائنات کے وہ معاملات دعا یا خدا کی غیر مشروط اطاعت کی بدولت اپنے حق میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں جو آفاقی قوانین سے متصادم نہ ہوں۔ مثلاً لاہور سے ٹنڈو الہ یار جاتے ہوئے اگر کسی شخص کی گاڑی میں پٹرول ختم ہو جائے اور وہ دعا مانگے کہ کہیں سے کوئی اللہ کا بندہ آکر اُس کی مدد کر دے تو یقیناً اُس کی مدد ہو جائے گی، بشرطیکہ اُس کا دل سچا ہو۔ اب یہ تھیوری ایسی ہے کہ جس پر بحث کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ پھونکوں سے علاج کرنے والے، ہاتھ ملا کر کرنٹ لگانے والے اور وظیفوں کے سہارے لوگوں کو اِس کائنات کی گتھیاں سمجھانے والے سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، سب سمپسنز ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ سمپسنز نے مذہب کا لبادہ نہیں اوڑھا جبکہ یہ سب لوگ اتفاقات کو بنیاد بنا کر اور اسے مذہب کی چادر اوڑھا کر مقدس بنا رہے ہیں تاکہ اِس پر سوال نہ اٹھایا جا سکے۔ دعا کی حقانیت سے کوئی انکار نہیں، دعائیں صرف ہماری آخرت سنوارنے کے کام آسکتی ہیں۔ پچھلے دنوں میرے ایک دوست کی دو انگلیاں حادثاتی طور پر کٹ گئیں، کیا کوئی پھونک مار کر یہ دو انگلیاں واپس لا سکتا ہے؟ اب بنیادی سوال پر واپس آتے ہیں کہ پھر یہ اتفاقات کیسے ہوتے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ سمپسنز نے اتنی بڑی تعداد میں درست پیشن گوئیاں کی ہوں یا کیسے ممکن ہے کہ کسی کے پاس بیٹی کی اسکول کی فیس کے پیسے نہ ہوں اور کوئی اللہ کا بندہ غیبی انداز میں یہ کام کر دے؟ اِس سوال کا جواب ’Taxas Sharpshooter Fallacy‘ میں ہے۔ اِس مغالطے کا مطلب ہے کہ کسی معاملے میں معلومات کے ذخیرے میں سے محض اپنی مرضی کی چند باتیں چُن کر نتائج اخذ کر لینا۔ مثلاً اِس دنیا میں روزانہ کروڑوں لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اُن کا دن اچھا گزرے، اُن میں سے لاکھوں لوگ اپنے مُرشدوں سے اشیر واد لے کر دِن شروع کرتے ہیں، اگر اُن میں سے سینکڑوں یا ہزاروں لوگوں کا دن بھی کسی وجہ سے اچھا گزر جائے تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ اُن کا مرشد کامل ہے۔ امریکی ٹی وی پر سمپسنز کی ساڑھے سات سو اقساط نشر ہوئیں، اِن اقساط میں دنیا جہان کے موضوعات پر کہانیاں بنائی گئیں، اُن میں امریکی صدارتی مہم، 2009کی کساد بازاری، دہشت گردی، وبائی امراض اور نہ جانے کیا کیا موضوعات زیر بحث آئے، اِن اقساط میں سینکڑوں باتیں ایسی ہوئی ہوں گی جو کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئیں لیکن صرف وہ چند باتیں جو اتفاقاً سامنے آ گئیں، انہوں نے تہلکہ مچا دیا۔ ناسٹرڈامس کی پیشن گوئیاں بھی ایسی ہی بے سروپا تھیں، اُس نے سینکڑوں مبہم قسم کی باتیں لکھیں، مگر یار لوگوں نے اُس میں سے بھی نائن الیون کی پیشں گوئی نکال لی۔
سو قصہ یہ ہے کہ دنیا بے حد پراسرار ہے، اگر آپ کبھی ناسا کی ویب سائٹ پر جائیں اور وہاں مختلف سیاروں اور خلا میں سنائی دینے والی آوازوں کو سنیں تو لگے گا جیسے ہم کسی انسانی جسم میں موجود بیکٹیریا سے بھی حقیر کوئی مخلوق ہیں جس کے گرد لا متناہی اور ’نا معلوم ‘بلیک ہولز کا ایک سلسلہ ہے، ہمارے لیے وہ ایک خلیہ ہی کائنات ہے اور ہم نے اسی میں فنا ہو جانا ہے۔ ہم تو اِس خلیے میں رونما ہونے والے اتفاقات کے بارے میں نہیں جانتے، کائنات تو بہت دور کی بات ہے۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔