تحریر: سید فواد رضا۔۔
کراچی سے طیارے نے اڑان بھری تو استنبول جاکر اترا، یہاں چار گھنٹے کا ٹرانزٹ اسٹے تھا، یعنی ایئر پورٹ گھومنے کا شاندار موقع۔۔ یہاں آکر اندازہ ہوا کہ ترک خواتین ویسی ہی ہیں جیسی ڈراموں میں نظر آتی ہیں کچھ یورپین کی طرح سنہرے بالوں والی تو کچھ ایشیائی باشندوں کی طرح سیاہ بالوں والی، افسوس صرف یہ تھا کہ وہی حسینائیں یہاں ٹرالیاں کھینچتی، اور ٹوائلٹ صاف کرتی بھی نظر آتی ہیں۔
ترکوں سے بات کرکے اندازہ ہوا کہ ارطغرل پاکستان میں اتنا مشہور کیوں ہے، لاہور والوں کی طرح ترک بھی غلط سمت بتانے اور کسٹمر کو جال میں پھنسانے کے ماہر ہیں، اب یہی دیکھ لیں کہ میں نے ایک ترک سے اسموکنگ ایریا کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے بیت الخلا بھیج دیا، دوسرے سےاپنے ٹرانزٹ لاؤنج کے بارے میں پوچھا تو وہ بتانے لگا کہ وہ لاؤنج بہت دور ہے تم میری بگھی سروس استعمال کرلو، بگھی یہاں ان گاڑیوں کو کہا جارہا تھا جو ہم نے صرف گالف کے میدانوں میں دیکھی ہیں۔۔ وہ تو شکر ہے کہ لاہور میں رکشے کے تجربات یاد تھے سو بھائی نے صرف راستا پوچھنے پر اکتفا کیا، لاؤنج کچھ زیادہ نہیں صرف آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، پاکستان سے باہر آدھا کلومیٹر کچھ بھی نہیں، صبح صبح مذاق مذاق میں ایک سنٹی گریڈ درجہ حرارت میں مارننگ واک کے نام پر چھ کلو میٹر چل کر آگیا ہے اور اب کمبل اوڑھے لیٹا ہوں
استنبول کے ایئرپورٹ پر سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ ترکی ویسا ہرگز نہیں جیسے ہمارے پاکستانی بھائی سمجھتے ہیں، پورے ایئرپورٹ پر نماز کے لیے چند جگہیں مختص تھیں، وہ بھی بیت الخلا کے برابر میں، جبکہ شراب ایئرپورٹ کی ہر دوکان میں موجود تھی، وہاں کی ڈیوٹی فری شاپس کے سامنے ہمارے ڈیپارٹمنٹل اسٹور بھی شرما جائیں، بھائی نے ایک نظر ان بوتلوں پر ڈالی، آدھی نظر حسیناؤں پر اور ضیا الحق کے لیے دعائے مغفرت کی کہ اس مردِ آہن کے سبب اپنا ملک دونوں طرح کی خرافات سے پاک ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ کراچی کا ائیرپورٹ جو کبھی بین الاقوامی ایئرٹریفک کا مرکز تھا، ترکی اور انگلینڈ کے ہوائی اڈوں کے سامنے ایسا ہی ہے جیسا کہ ہائپر اسٹار کے سامنے محلے کی کریانے والی دوکان، جس پر کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے کہ برسا برس پرانی تختی لگی ہونے کے باوجود صارفین کے سالہا سال پرانے کھاتے چلتے رہتے ہیں۔
ایک ترک نوجوان پر اس وقت بے تحاشا پیار آیا جب اس نے کرتے شلوار میں ملبوس ایک بزرگ کو دیکھ کر با آواز بلند سلام کیا، حالانکہ انہی بزرگ سے دو قدم آگے عربی جبے میں ملبوس ایک شخص بھی جارہا تھا۔۔قدر کرو پاکستانیو! جس کرتا شلوار کو تم گراں سمجھتے ہو، کم از کم ایک ترک تو اسے اسلامی لباس سمجھتا ہے۔۔
ویسے آپس کی بات ہے دنیا کی حکومتیں شاید ہمیں دہشت گرد سمجھتی ہوں لیکن پاکستان سے باہر شاید ہم پاکستانی دنیا کے سب سے شریف انسان نظر آتے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہنگری سے تعلق رکھنے والی خاتون جو کہ ایک ننھے بچے کو ساتھ لیے تنہا سفر کررہی تھیں، مغلیہ شان سے کافی پیتے آپ کے بھائی کے پاس آئیں اور سوال کیا، “اے خاندانی انسان! کیا تم چند منٹ میرے بچے کا دھیان رکھ سکتے ہو کہ مجھے ٹوائلٹ جانا ہے”؟..
چار گھنٹے استنبول کے ایئرپورٹ پر جوتے چٹخانے، شاپس گھومنے، کافی اور اسموک سینڈوچ سے لطف اندوز ہونے اور چند منٹ کی بے بی سٹنگ کرنے کے بعد جہاز نے پرواز بھری اور کراچی کے مشہور ومعروف علاقے لالوکھیت کا سب سے عظیم شاعر، صحافی اور فلسفی لندن کے لیے روانہ ہوگیا۔(سید فواد رضا)۔۔