تحریر: شفقت بھٹہ،جنرل سیکرٹری ایم یو جے
جہاں میڈیا بحران نے صحافیوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہیں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) سمیت ملک بھر کی یوجیز کو گزشتہ چند ماہ سے مالی مسائل کا سامنا ہے، سب جانتے ہیں کہ پی ایف یو جے کا الیکشن سال کے اوائل میں ہو جانا آئینی طور پر ضروری تھا مگر کوئی کیا کر سکتا تھا، یہاں تو بی ڈی ایم دور کی بات ایف ای سی کرانے کے لئے کوئی یو جے تیار نہیں تھی۔ وقت گزرتا گیا تو ہم سب کی تشویش بھی بڑھتی گئی مگر اس مسئلے کا کسی کے پاس کوئی حل نہیں تھا، کسی یو جے کے پاس اتنے فنڈز نہیں تھے کہ وہ ایف ای سی یا بی ڈی ایم کا بوجھ برداشت کر سکے۔ بہرحال اسی دوران ایف ای سی واٹس ایپ گروپ میں بحث بھی جاری رہی کہ آخر کیا کیا جائے۔ راقم الحروف نے بیٹھے بٹھائے ایک تجویز دی کہ ایف ای سی جس شہر میں کرائی جائے وہاں کی یو جے پر بوجھ نہ ڈالا جائے اور اس میں شریک ہونے والے قیام و طعام کے اخراجات خود برداشت کریں، اس وقت مجھے لگ رہا تھا کہ سب میری اس تجویز پر ہنسیں گے مگر جب اس وقت کے صدر پی ایف یو جے افضل بٹ صاحب نے اس تجویز کو پسند کیا تو بات آگے بڑھتی نظر آئی، کچھ ممبران ایف ای سی نے اجلاس اسلام آباد میں منعقد کرانے کی تجویز دی۔
ان تجاویز پر رائے لینے کے لئے سابق صدر پی ایف یو جے افضل بٹ صاحب نے صدر ایم یو جے ملک شہادت حسین کو زمہ داری دی کہ وہ پی ایف یو جے کے عہدیداران و ممبران ایف ای سی کو باری باری فون کر کے اس تجویز بارے رضا مندی حاصل کریں تا کہ جلد سے جلد ایف ای سی کا انعقاد ممکن ہو سکے۔ صدر ایم یو جے ملک شہادت نے 60 سے زائد عہدیداران و ممبران کو فون کیا اور رائے لی۔ بیشتر نے ان تجاویز سے اتفاق کیا اور یوں ایف ای سی نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوئی تاہم شرکاء ایف ای سی کو آر آئی یو جے کے صدر عامر سجاد، جنرل سیکرٹری آصف بھٹی اور دیگر زمہ داران کی جانب سے ایک رعائت مل گئی کہ انہوں نے شرکاء کے لئے طعام کا بندوبست کر دیا، یوں ایف ای سی کے شرکاء اپنے اپنے قیام کی بنیاد پر اس اجلاس میں شریک ہوئے۔
چونکہ ایف ای سی کا یہ اجلاس اس باڈی کا آخری اجلاس تھا اس لئے اس میں بی ڈی ایم کا فیصلہ بھی ضروری تھا۔ آخری روز تھا مگر بی ڈی ایم کے فیصلے میں بدستور ڈیڈ لاک برقرار تھا۔ کافی بحث و مباحثے کے بعد طے پایا کہ کے یو جے کے صدر اشرف خان سے فون پر بات کی جائے، فون کا لاوڈ سپیکر آن کر دیا گیا، اجلاس میں خاموشی طاری تھی، اس وقت کے صدر افضل بٹ صاحب، سیکرٹری جنرل ایوب جان سرہندی صاحب، اسسٹنٹ سیکرٹری لالہ اسد پٹھان صاحب اور جاوید چودھری صاحب نے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا، اشرف خان صاحب نے کچھ وقت مانگا، فون بند ہو جانے کے بعد اجلاس میں غیر یقینی کی صورت حال برقرار تھی۔ آدھے گھنٹے بعد صدر کے یو جے اشرف خان کا فون آیا جسے لاوڈ سپیکر آن کر کے تمام شرکاء کو سنایا گیا، فون کے دوران اشرف خان صاحب نے بتایا کہ کے یو جے کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بی ڈی ایم کا بوجھ کراچی اٹھائے گا۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ کے یو جے کے فیصلے کو اس وقت جس طرح سے سراہا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
بی ڈی ایم کا وقت آیا، کے یو جے کے صدر اشرف خان، جنرل سیکرٹری احمد ملک اور دیگر دوستوں نے نہ دن دیکھا اور نہ رات، انتطامات کرنے میں لگے رہے، ہوٹلز کی بکنگ، کھانوں کا بندوبست، بی ڈی ایم کی کاروائی کے لئے بھرپور بندوبست، مہمانوں کو ریلوے اسٹیشن پر خوش آمدید کہنا، انہیں عزت و احترام کے ساتھ ہوٹلز تک پہنچانا گویا کوئی ایسا کام نہیں تھا جس میں کے یو جے نے کوئی کسر چھوڑی ہو۔ اس پر راقم الحروف انہیں سیلوٹ پیش کرتا ہے۔
ویلڈن کے یو جے۔۔شکریہ کے یو جے۔۔۔الیکشن ڈے کے موقع پر کراچی سے تعلق رکھنے والے بعض ذمہ داران نے الیکشن سے الگ ہو جانے کا اعلان بھی کیا جس پر افسوس ہوا، انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جوڑ توڑ اور پینل سازی الیکشن پراسس کا لازمی جزو ہوتا ہے، اگر ایک پینل مضبوط ہے یا اس پینل میں کراچی کو مناسب حصہ نہیں مل رہا تو مخالف پینل کو اپنی صف بندی کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ الیکشن سے قبل سیکرٹری جنرل کے امیدوار فہیم صدیقی صاحب مخالف پینل سازی کے لئے بھرپور کردار ادا کر رہے تھے مگر شاید ناکامی ان کو دکھائی دے رہے تھی اور وہ بھی الیکشن ڈے کو پیچھے ہٹ گئے اور یوں افضل بٹ گروپ نے نہ صرف ایک بار پھر میدان مارا بلکہ ملک بھر کے صحافیوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ یہی پی ایف یو جے صحافیوں کی نمائندہ ہے۔
پی ایف یو جے کے الیکشن ہو گئے، ملک بھر سے آئے ہوئے مندوبین و امیدواران اپنے اپنے شہروں کو واپس لوٹ گئے مگر کے یو جے کی مہمان نوازی ہمیشہ یاد رہے گی۔( شفقت بھٹہ،جنرل سیکرٹری ایم یو جے)