تحریر : اخلاق احمد
یہ خوشی اور حیرت کی شام تھی ۔ جس کراچی پریس کلب سے چار عشرے قبل محبت کا تعلق استوار ہوا تھا ، اسی پریس کلب نے گزری شام مجھے یاد کیا ، عزت بخشی ، ملاقات کی ایک تقریب کا اہتمام کیا ۔ یہ کلب کی نئی روایت ہے ۔ لوگوں کو رخصت ہونے کے بعد یاد کرنے کے بجائے ، ان کی زندگی میں ہی ان کے ساتھ نشست رکھنا ، ان کے سفر کی پوری کہانی سننا ، ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرنا ، انہیں احساس دلانا کہ کسی نے انہیں نہیں بھلایا ہے ۔ کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی ، سیکرٹری رضوان بھٹی ، جوائنٹ سیکرٹری ثاقب صغیر ، خلیل ناصر ، نصر اللہ چوہدری ، عامر لطیف ، عبد الوسیع قریشی ، علی عمران جونیئر ۔۔۔۔ سمجھئے کوئی پوری فوج موجود تھی۔ وسعت اللہ خان بولے ، اور کیا خوب بولے ۔ انور سن رائے صاحب نے بھی خطاب کیا ۔ ان دونوں نے جو کچھ کہا ، اس کو شاید میں اپنے لفظوں میں بیان نہ کر سکوں ۔ غیر مشروط اور بے غرض محبت کو یوں بھی لفظوں کے ذریعے فہم کا پیرہن نہیں دیا جا سکتا ۔ پھر وہ مشکل مرحلہ آیا ۔ یعنی میرے لئے مشکل مرحلہ ۔ اپنی صحافتی زندگی کو بیس پچیس منٹ میں بیان کرنے کا مرحلہ ۔ تین عشروں کو ، ہزاروں صبحوں شاموں کو ، برسوں پر پھیلی خوشیوں اور غموں اور ملاقاتوں اور کاموں کو بھلا نصف گھنٹے میں کہاں سمیٹا جا سکتا ہے ۔ ہاں ، بس ایک سرسری نظر ڈالی جا سکتی ہے ۔ اس کے بعد ایک اوپن ہاؤس تھا ۔ آنے والے کرم فرماؤں کی گفتگو کا وقت ۔ میرے محسن ، میرے استاد ، ڈاکٹر نثار احمد زبیری مجھے شاباش دینے کے لئے موجود تھے ۔ آنکھوں میں آنسو اترنے لگتے ہیں جب آپ کا باپ اور بڑے بھائی جیسا استاد ، آپ کواخبار جہاں میں لانے والا ، آپ کو انگلی پکڑ کر چلانے والا ، سب کے سامنے آپ پر فخر کا اظہار کرے ۔ کراچی پریس کلب کی جانب سے روایتی اجرک اور ٹوپی پہنائی گئی ، پریس کلب کی شیلڈ دی گئی ۔ یاران عزیز عبد السلام سلامی ، عطا محمد تبسم ، احمد سلیم صدیقی ، حسن جاوید ، خالد فرشوری، عقیل صدیقی نے اوپن ہاوس میں بڑی مہربانی کی ، میرے پرخچے نہیں اڑائے۔ برادر روشن خیال اور رضوان صدیقی صاحب اور ڈاکٹر توصیف احمد خان نے بھی ۔ مظہر نسیم اور عادل لودھی نے بھی ۔ خاص بات یہ ہوئی کہ پریس کلب کے صدر ، پیارے شاعر اور ہمارے یار فاضل جمیلی نے ، جو سادگی اور پرکاری میں اپنی مثال آپ ہیں ، پہلے بہت سادہ سے انداز میں عالیہ سے اسٹیج پر آ کر بیٹھنے کے لئے اصرار کیا ، اور تقریب کے اختتام سے قبل اسی سادگی سے اصرار شروع کر دیا کہ بھابی صاحبہ ، آپ کو بھی بولنا ضرور ہے ۔ اس کے بعد ہلکے پھلکے سوال جواب سیشن کے ذریعے سب کو گویا مطلع کر دیا کہ میرے ہر افسانے کی پہلی قاری ہمیشہ عالیہ ہی ہوتی ہیں ، اور یہ کہ وہ مجھے کسی نہ کسی کہانی کی خامی سے بھی واضح طور پر آگاہ کرتی آئی ہیں۔ نذیر لغاری اپنے ٹی وی پروگرام کی وجہ سے تاخیر سے پہنچے ۔ مظہر عباس بھی ۔ اکرم خان بھی بعد میں ملے ۔ نہ جانے کتنے نام بھول رہا ہوں ۔ شکریہ کراچی پریس کلب ، تم نے اس میٹھی ، مدبھری شام کے ذریعے حیران کر دیا ، دل کو خوشی سے بھر دیا ۔ اللہ تمہیں اسی طرح سربلند ، باوقار اور پرشکوہ رکھے۔۔۔۔!!!(اخلاق احمد)