تحریر: ندیم آرائیں۔۔
سینے سے میرے زہر کو اترنے نہیں دیتے ۔۔۔۔زندہ رہیں وہ لوگ جو مرنے نہیں دیتے ”
شعبہ صحافت میں خاک چھانتے ہوئے مجھے کوئی ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے ۔اس طویل دورانئے میں مجھے کبھی اپنے اوپر کسی ایسی چھت کا احساس نہیں ہوا تھا ،جو مجھے سایہ فراہم کرسکے ۔ایسالگتا تھاکہ تمام سفر کڑی دھوپ میں ہی تمام ہونا ہے ۔ایسالگتا تھا کہ سب اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں ،جس میں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن آج پیش آنے والے ایک ناخوشگوار واقعہ نے مجھ پر خوشگوار حیرت کے کئی در کھول دیئے ہیں ۔جمعہ کی صبح اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران گلشن اقبال کے علاقے میں مجھے جرائم پیشہ عناصر نے نہ صرف اغواء کیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا ۔میں ایک عام سا رپورٹر ہوں ،جس کی پہنچ وہاں تک نہیں جہاں سے ان ملزمان کے پر جل سکیں لیکن مجھے ایک بات کا احساس تھا کہ میں کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن (سی آراے)کا ممبر ہوں ۔وہی سی آر اے جس نے نیوز ون کے عرفان بھائی کے انتقال کے بعد بتایا تھاکہ حق کس طرح چھین کر لیا جاتا ہے ۔میں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی اطلاع سی آر اے کے ذمہ داران کو دی اور اس کے بعد ایسا لگا کہ یہ کسی تنظیم کے ذمہ دار نہیں میرے بڑے بھائی ہیں ۔بالکل گھر کے کسی فرد کی طرح یہ میری دادرسی کو آئے اور میری ڈھارس بندھائی ۔سی آر اے کے ذمہ داران نے واقعہ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس حکام سے رابطہ کیا اور میرے کاندھوں سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوگئے ۔اتحاد کی اس برکت کے باعث ملزمان کو چند گھنٹوں کے اندر ہی گرفتار کرلیا گیا ۔آج بلاشبہ مجھے اپنا سینہ چٹان سا محسوس ہورہاہے ۔سی آر اے ممبر شپ آج مجھے اپنے لیے باعث فخر محسوس ہورہی ہے ۔۔آج مجھے سی آر اے کی بدولت یہ اعتماد ملا ہے کہ اب مجھ سمیت سی آر اے کے کسی ممبر کا سفر اب کڑی دھوپ میں طے نہیں ہوگا ۔ہمارے پاس اب ایک سائبان موجود ہے ۔ہمارے گرد ایسے بازو موجود ہیں جو مصیبت کی گھڑی میں ہمیں اپنے حلقے میں لے لیں گے ۔۔سی آر اے ہم کرائم رپورٹرز کا مان ہے اور ہم اپنے اس مان کبھی نہیں ٹوٹنے دیں گے ۔(ندیم آرائیں)