تحریر: جاوید چودھری۔۔
کیپٹن چارلی پلمپ امریکی پائلٹ تھا‘ یہ 1960 کی دہائی میں ویتنام میں پوسٹ تھا‘ اس نے 74 کام یاب فضائی آپریشن کیے اور امریکی فضائیہ کا ’’آئی کان‘‘ بن گیا‘ چارلی نے 74ویں آپریشن کے بعد چھٹی اپلائی کر دی‘ چھٹی منظور ہو گئی لیکن روانگی سے پانچ دن قبل اس کے سینئر نے اسے آخری مشن پر روانہ کر دیا۔اس کا سامان پیک تھا‘ الوداعی ملاقاتیں بھی ہو گئی تھیں‘ خاندان امریکا میں اس کا انتظار کر رہا تھااور وہ عملاً ڈیوٹی سے آف ہو چکا تھا مگر سینئرز کے دبائو پر اس نے 75ویں آپریشن کی حامی بھر لی‘ وہ اپنے ایف۔4 فینٹم میں بیٹھ گیا‘ انجن اسٹارٹ تھااور وہ جب رن وے کی طرف نکلنے لگا تھا کہ اس نے دور سے ایک شخص کو اپنی طرف دوڑتے ہوا دیکھا‘ وہ شخص دونوں ہاتھ ہلا کر اسے روک رہا تھا۔
چارلی کے پاس وقت کم تھا‘ ٹیک آف کا سگنل مل چکا تھا‘ اس نے اس شخص کے اشارے کو اگنور کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پھر کسی نے اس کا ہاتھ روک لیا‘ وہ شخص دوڑتا ہوا اس کے قریب آیا اور انجن کی آواز کے درمیان زور زور سے بولا ’’سر جہاز میں پیرا شوٹ نہیں ہے‘ میں آپ کے لیے پیرا شوٹ لایا ہوں‘‘ چارلی پلمپ اس وقت تک ہزار فلائیٹ کر چکا تھا اور اسے کبھی پیرا شوٹ کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔اس کا خیال تھا وہ جائے گا اور ماضی کی طرح دس منٹ میں واپس آ جائے گا لہٰذا اس نے ہاتھ سے ’’چل اوئے پرے ہٹ‘‘ کا اشارہ کیا مگر وہ افسر اصرار کرتا رہا‘ چارلی نے تنگ آ کر پیراشوٹ لوڈ کر لیا اور جہاز کو رن وے پر چڑھا دیا‘ وہ معمول کے مطابق اڑا‘ کمیونسٹ باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور واپس مڑگیا لیکن نہ جانے کسی طرف سے ایک میزائل آیا اور اس کے طیارے کے پرخچے اُڑ گئے تاہم وہ وقت پر پیرا شوٹ کھولنے میں کام یاب ہو گیا اور جنگل میں اتر گیا‘ وہ باغیوں کا علاقہ تھا‘ چارلی جنگل میں دشمن سے بچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن بدقسمتی سے پکڑا گیا۔
اس پر شدید ٹارچر ہوا اور اسے آٹھ بائی آٹھ کے سیل میں پھینک دیا گیا‘ وہ چھ سال کمیونسٹوں کی حراست میں رہا‘ ٹارچر‘ بھوک‘ بیماری‘ اذیت‘ بے عزتی اور آٹھ بائی آٹھ کا چھوٹا سا سیل‘یہ اس کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا‘ امریکن فوج اور اس کے خاندان نے اسے مردہ سمجھ کر دل پر پتھر رکھ لیا‘ اس کے اعزاز میں دعائیہ تقریبات تک ہو گئیں لیکن وہ چھ برس بعد زندہ سلامت واپس آ گیا۔کیپٹن چارلی پلمپ نے واپسی کے بعد پانچ ہزار امریکن بزنس مینوں‘ صحافیوں اور دانشوروں سے خطاب کیا‘ اس نے اپنی ساری کہانی سنائی اور آخر میں انھیں بتایا‘ میں قید میں جب مایوس ہوتا تھا تو دو چیزیں ہر بار حوصلہ دیتی تھیں‘ پیراشوٹ اور تھینک یو کا ایک ادھار‘ وہ بولا‘ میں سوچتا تھا میں اس دن پیراشوٹ کے بغیر فلائی کر رہا تھا مگر ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے مجھے زبردستی پیراشوٹ دے دیا‘ وہ اگر نہ آتا اور پیراشوٹ کے لیے اصرار نہ کرتا تو میں جہاز کے ساتھ جل کر مر جاتا‘ اللہ کو میری زندگی عزیز تھی چناں چہ اس نے عین وقت پر ایک فرشتہ میری مدد کے لیے بھیج دیا۔
مجھے یہ بات قوت دیتی تھی‘ دوسرا میں سمجھتا تھا مجھے زندگی میں کم از کم ایک بار پیرا شوٹ دینے والے سے ضرور ملنا چاہیے اور اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے‘ میں اگر اس شخص کا شکریہ ادا کیے بغیر فوت ہو گیا تو یہ ڈیفالٹ ہو گا چناں چہ مجھے شکریے کے اس ادھار نے بھی زندہ رکھا‘ چارلی پلمپ کا کہنا تھا‘ میں نے قید کے دوران خود کو چارلی پلمپ سے چارلی چپلن بنالیااور میں اپنی حرکتوں سے دوسرے قیدیوں کو خوش رکھنے لگا‘ چارلی پلمپ نے اس کے بعد پیراشوٹ دینے والے ٹیکنیکل افسر کو تلاش کرنا شروع کر دیا مگر وہ اسے نہ ملا‘ پندرہ سال گزر گئے‘ وہ اسے تلاش کرتا رہا۔
وہ ایک دن کسی ریستوران میں کھانا کھا رہا تھا‘ ویٹر نے اس کا نام پوچھا اور پھر بتایا‘ میں ویتنام میں آپ کا کولیگ تھا‘ میں نے ہی آپ کی آخری فلائیٹ کے وقت آپ کو پیراشوٹ دیا تھا‘ چارلی پلمپ کے ہاتھ سے فورک گر گیا‘ وہ اٹھا‘ ویٹر کو گلے سے لگایا اور ہچکیوں سے روتے ہوئے کہا’’میں تمہیں پندرہ سال سے تلاش کر رہا ہوں‘ تم نے دو مرتبہ میری جان بچائی تھی‘ جہاز اُڑانے سے پہلے اور دوسری مرتبہ قید کے دوران‘ میں روز یہ سوچ کر سوتا تھا میں ایک دن قید سے نکلوں گا اور تمہارا شکریہ ادا کروں گا‘ تم نہ ہوتے تو میں جہاز کے ساتھ مرجاتا یا پھر قید میں خودکشی کر لیتا‘‘۔
ہم سب لوگ زندگی کی چھوٹی چھوٹی مشکلوں کے دوران وہ پیرا شوٹ بھول جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہم بڑی مصیبتوں سے بچ گئے تھے‘ ہم پیراشوٹ دینے والوں کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ ہم کبھی رک کر ان کا شکریہ ادا نہیں کرتے‘ بقراط نے کہا تھا ہم انسانوں کو اگر شکر اور شکریہ کی قیمت کا اندازہ ہو جائے تو ہم زندگی میں تھینک فل ہونے کے علاوہ کوئی کام نہ کریں‘ مہاتما بودھ کی پوری زندگی بھی شکر کی تبلیغ میں خرچ ہو گئی‘ بودھ جب شہزادہ تھا تو اس کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا تھا ’’انسان دکھی کیوں ہوتا ہے‘‘ اس نے اپنی زندگی اس سوال کے جواب کے لیے وقف کر دی۔
سلطنت چھوڑی‘ محل چھوڑا‘ اپنی حسین ترین بیوی یوشودھرا چھوڑی‘ اپنا سات دن کا بیٹا راہول چھوڑا اور جنگلوں میں مارا مارا پھرنے لگا‘ وہ اپنے وقت کے ہر جوگی‘ ہر پنڈت اور ہر رشی کے پاس گیا مگر اس کو اپنے سوال کا جواب نہ ملا‘ اس نے آخر میں مجبور ہو کر گیا کے چھوٹے سے گائوں میں برگد کے درخت کے نیچے پناہ لے لی‘ آلتی پالتی ماری اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا‘ تم اگر وہاں ہو تو تمہیں میرے سوال کا جواب دینا ہو گا ورنہ میں اس درخت کے نیچے بیٹھا بیٹھا مر جائوں گا‘ وہ دھن کا پکا تھا چناں چہ ایک رات آسمان سے بجلی گری اور اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔قدرت نے اسے بتایا ’’انسان کو صرف اور صرف خواہش دکھ دیتی ہے‘ خواہش بڑی ہو گی تو دکھ بڑا ہو گا‘ خواہش چھوٹی ہو گی تو دکھ چھوٹا ہو گا‘‘ یہ پیغام خوشی کے محل کی کنجی تھا‘ بودھ نے لوگوں کو بتانا شروع کر دیا‘ خواہشیں چھوڑ دو‘ سکھ پا جائو گے‘ پورا بودھ مت اس نظریے پر کھڑا ہے‘ یہ لوگ دو چادروں‘ لکڑی کے سلیپرو‘ ایک جھولے اور بھیک کے چھوٹے سے کشکول کے ساتھ پوری زندگی گزار دیتے ہیں‘ خواہشوں کی گٹھڑی اٹھا اٹھا کر نہیں پھرتے‘ ان کی دوسری عادت شکر ہے‘ یہ روز صبح اٹھنے کے بعد اللہ کی نعمتیں گنتے ہیں اور پھر ایک ایک نعمت کا نام لے کر رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔
یہ شکریے کو بھی ادھار سمجھتے ہیں اور اس ادھار کو کبھی اپنے ذمے نہیں رہنے دیتے‘ بودھوں کی مقدس کتاب میں لکھا ہے نروان کے بعد مہاتما بودھ کا ایک دن اپنی ریاست کپل وستو سے گزر ہوا‘ اس کی بیوی نے سنا تو اس نے اپنے بیٹے راہول کو بودھ کے پاس بھجوا دیا لیکن خود محل میں رہی‘ بودھ نے بیٹے سے پوچھا ’’تمہاری ماں کیوں نہیں آئی‘‘ اس نے جواب دیا ’’وہ کہہ رہی تھیں بودھ کے ذمے میرا ایک ادھار ہے‘ یہ اگر واقعی کسی کا ادھار نہیں رکھتا تویہ پھر میرا ادھار ادا کرنے کے لیے خود میرے پاس آئے گا‘‘ بودھ نے سنا‘ مسکرایا اور ننگے پائوں محل کی طرف روانہ ہو گیا۔
بیوی نے پردے کے پیچھے سے پوچھا‘ میرے تین سوال ہیں‘ مجھے ان کے جواب چاہییں‘ بودھ سنتا رہا‘ اس نے کہا‘ راجپوت عورتیں جنگوں میں بھی اپنے خاوندوں کو خود تیار کر کے بھجواتی ہیں لیکن آپ نے ایک معمولی سے جواب کی تلاش میں جانے سے پہلے مجھے بتانا بھی مناسب نہ سمجھا‘ آپ چوری چھپے محل سے بھاگ گئے‘ کیوں؟ بودھ نے جواب دیا‘ میرا خیال تھا میں نے اگر بتایا تو پھر میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جا سکوں گا‘ یوشودھرا کا دوسرا سوال تھا آپ کہتے ہیں کائنات کو بنانے والا ہر جگہ موجود ہے‘ اگر وہ ہر جگہ ہے تو کیا وہ آپ کو محل میں نہیں مل سکتا تھا‘ آپ نے وہ کیوں چھوڑا؟
بودھ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا‘ اس نے اس کے بعد پوچھا‘ آپ اپنے بیٹے راہول کو دنیا میں کیا دے کر جائیں گے‘ بودھ مسکرایا اور اپنا کشکول اپنے بیٹے کے ہاتھ میں دے دیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا‘ یہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی‘ سب سے بڑی نعمت ہے۔بودھ بھکشو کہتے ہیں آپ شکر کرتے جائیں آپ کی نعمت اور خوشیاں بڑھتی جائیں گی اور آپ شکریہ ادا کرتے جائیں آپ کی خوشیوں اور نعمتوں میں رنگ‘ذائقہ اور خوشبو آتی جائے گی‘ نبی اکرمؐ نے بھی فرمایا تھا‘ جو شخص انسانوں کا احسان نہیں مانتا وہ اللہ کا احسان بھی تسلیم نہیں کرتا۔
آپ یقین کریں اگر ہمارے منہ کا لعاب سوکھ جائے‘ کان میں میل پیدا نہ ہو یا ناک میں بال نہ اگیں تو ہم کروڑوں روپے خرچ کر کے بھی یہ نعمتیں حاصل نہیں کر سکتے‘ ہمارے ٹیسٹ بڈز (ذائقہ محسوس کرنے کے سیل) میں سے اگر ایک گروپ خراب ہو جائے تو ہم ساری دنیا کی دولت دے کر بھی وہ واپس حاصل نہیں کر سکتے‘ ہماری ایک دن کی آکسیجن اور ایک دن کی روشنی کی قیمت 8 لاکھ روپے ہے اور یہ ان 16لاکھ نعمتوں میں سے صرف دو ہیں جو اللہ نے ہمیں مفت دے رکھی ہیں مگر ہم اس کے باوجود اس کا شکر ادا نہیں کر تے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے آج تک ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا جن کے پیرا شوٹس کی وجہ سے ہم زندہ بھی ہیں اور زندگی میں آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔
آپ یاد رکھیں انسان شکریے سے شکر تک جاتا ہے‘ آپ جب تک شکریے کی عادت نہیں ڈالتے آپ شکر کی نعمت تک نہیں پہنچتے چناں چہ آئیے آج سے شکریہ ادا کرنا شروع کرتے ہیں‘ ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جن کی کھال کے جوتے پہن کر ہم زندگی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔