تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،سب سے پہلے تو گزشتہ دوکالموں کی غیرحاضری کی معافی چاہتا ہوں۔۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ’’ناغہ ‘‘ نہ کیا جائے، لیکن اس بار حالات قابو سے باہر ہوگئے۔۔ والد محترم کی گردن میںاچانک تکلیف شروع ہوئی، اسپتالوں کے چکر شروع ہوگئے، مختلف قسم کے ٹیسٹ ، ایم آر آئی، سٹی اسکین ،بون اسکین، اور پتہ نہیں کیا کچھ کرالیا۔۔ کراچی کے تمام ٹاپ کے نیوروسرجنز سے کنسلٹ کیا ، سب نے اپنے اپنے حساب سے دوا دی اور ٹیسٹ لکھے، یہ عمل دو ہفتے سے جاری تھا، گزشتہ ہفتے اتوار کے روز لیاقت نیشنل اسپتال میں داخل کیا، آئی سی یو میں تین روز ایڈمٹ رہے وہیں تشخیص ہوئی کہ والد محترم کو کینسر ہے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر۔۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ گردن کی تکلیف ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، پتہ چلا کہ ایک مہرہ کینسر کا مواد کھاچکا، اب کینسر کے ماہرین کے پاس تمام رپورٹس اور ٹیسٹ لے کر گئے تو سب نے والد کی عمر اور مرض کی شدت کو دیکھتے ہوئے انکار کردیا اور کہا کہ بس اب انہیں گھر لے جائیں اور ان کی خدمت کریں، اب یہ تین ماہ کے مہمان ہیں۔۔ جب ایسے معاملات یکے بعد دیگرے اچانک سامنے آئیں تو انسان حواس باختہ تو ہوہی جاتا ہے۔۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جب والد صاحب کو تکلیف شروع ہوتی ہے انہیں پین کلر انجکشن لگاتے ہیں، گھر کا ایک کمرہ آئی سی یو بنادیا ہے۔۔ آپ احباب سے درخواست ہے کہ ان کی صحت یابی کے لیے ضرور دعا کریں کیوں کہ اب کوئی معجزہ ہی انہیں بچاسکتا ہے، کہتے ہیں دعاؤں سے تقدیر بدل جاتی ہے۔۔ اللہ پاک سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔
جب ہر طرف کورونا ہی کورونا ہو، لاک ڈاؤن اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کے سلسلے جاری و ساری ہوں تو گھر میں قید انسان کبھی کبھی ایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ ٹرین کا مسافر ہو، ہر چند گھنٹے بعد واش روم کا چکر لگاکر پھر سے بیڈ پر واپس آجانا، پھر دن میں تین ٹائم جس طرح سیلپر یا بزنس کلاس میں ’’کھانے والا، کھانے والا‘‘ کی صدائیں آتی ہیں، ناشتہ ، لنچ اور ڈنر کی پیشکش کی جاتی ہے۔۔ کھانا کھاؤ، پھر بیڈ پر واپس۔۔ جب اکثریت کا یہی ’’شغل‘‘ ہوتو پھر ایسے ہی لوگوں کے لیے آج پیش خدمت ہے۔۔شغل یات۔۔ جس کی کسی بھی بات سے آپ کا متفق ہونا قطعی ضروری نہیں۔۔ چلیے پھر شغل میلہ شروع کرتے ہیں۔۔کورونا اور لاک ڈاؤن ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا،گندے برتنوں کے ڈھیر سے گھبرا کر بیوی بڑبڑائی۔۔چراغ کا جن ہمیشہ مردوں کو ہی کیوں ملتا ہے؟؟ خواتین کو کیوں نہیں ملتا؟؟ کاش آج میرے پاس بھی کوئی جن ہوتا تو گھرکے کاموں میں میرا بھی ہاتھ بٹاتا۔۔خاتون خانہ کی بڑبڑاہٹ اور معصوم سی خواہش سن کر ایک جن جو قریب سے گزررہا تھا اچانک ظاہر ہوگیا اور کہنے لگا۔۔ قوانین کے مطابق ایک خاتون کو ایک وقت میں ایک ہی جن مل سکتا ہے۔۔ہمارے ریکارڈ کے مطابق تمہاری شادی ہو چکی ہے، اور تمہیں تمہارا جن مل چکا ہے۔۔اسے ابھی تم نے سبزی منڈی بھیجا ہے،راستے میں ٹیلر سے تمہارا سوٹ لیتے ہوئے،گروسری سے گھر کا سامان لائے گا،یاد سے تمہارے لیے سر درد کی دوا بھی لازمی لائے گا،اس کے بعد وہ اپنے کام کاج پر جائے گا۔۔اور آتے آتے شام کو تمہارے لیے تمہاری پسند کی آئس کریم بھی لے آئے گا!!۔۔تمہارا جن اگرچہ تھوڑا ٹائم زیادہ لیتا ہے، مگر چراغ والے جن سے زیادہ محنتی اور زیادہ کام کرنے والا ہے اور اتنا کچھ کرنے کے بعد ذلیل وخوار بھی ہو گا،یہ سب ہمارے بس سے باہر ہے۔۔اتنا کہہ کر وہ جن جس طرح اچانک ظاہر ہواتھا ویسے ہی اچانک غائب ہوگیا۔۔ اور خاتون خانہ بے ہوش ہوکر کچن کے فرش پر گرپڑی۔۔
ہمارے ایک پٹواری دوست جو پہلے دن سے موجودہ حکومت کے خلاف ہیں۔۔ ایک دن ملاقات میں حکومت کا ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔ وزیرہوابازی نے قومی ائرلائن معطل کرادی۔۔ وزیر ریلوے کی زیرنگرانی نوے حادثے ہوچکے۔۔وزیرخوراک کی قیادت میں آٹا چینی اسکینڈلز آچکے۔۔وزیرپیٹرولیم قوم کو پٹرول کے لیے خوار کراچکے۔۔وزیر صحت سے کورونا بے قابو اور ادویات کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ہیں۔۔وزیر خارجہ کشمیر ہار کر گنڈیریاں چوپتے رہے۔۔وزیر صنعت انڈسٹری کا پہیہ جام کروا چکے۔۔وزیر خزانہ معیشت کا دھواں نکال چکے۔۔۔وزیر اطلاعات تین بار تبدیل ہو چکے۔۔۔وزیر تعلیم یورنیورسٹی/کالجز کے وظائف بند کر چکے،اور اب تک اسکول نہیں کھلواسکے۔۔وزیر حج فریضہ مقدس دگنا مہنگا کر چکے۔۔۔وزیر سائینس و ٹیکنالوجی چن چڑھان دا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔۔اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ تمام خبریں وزیراعظم کو ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں۔۔
ایک پاگل خانے میں ایک پاگل سوئمنگ پول کے کنارے ٹہل رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ ایک پاگل لڑکی نے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگائی اور اسکی تہہ میں جا کر غائب ہوگئی۔ پاگل نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ فوراً تالاب میں کودا۔ تیرتا ہوا تہہ تک پہنچا اور لڑکی کو باہر نکال کر لے آیا۔پاگل خانے کے ڈائریکٹر تک جب یہ خبر پہنچی تو اس نے پاگل کو بلایا اور اسے کہا کہ تمھارے لیے ایک اچھی خبر ہے اور ایک بری خبر۔اچھی خبر یہ ہے کہ کل جس طرح تم نے ایک لڑکی کو ڈوبنے سے بچایا ہے اس پر ہمارے بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ تمھارے اندر انسانی ہمدردی کے جذبات زندہ ہوچکے ہیں اور تمھارا دماغ کام کرنا شروع ہوگیا ہے۔ لہذا تمھیں گھر جانے کی اجازت ہے۔‘‘اچھا جی‘‘ پاگل خوشی سے اچھل پڑا‘‘لیکن بری خبر کیا ہے؟‘‘۔۔۔‘‘بری خبر یہ ہے کہ تم نے جس لڑکی کو تالاب سے نکال کر جان بچائی تھی۔ اس نے چھت پر جاکر گلے میں رسی ڈال کر خود کشی کر لی ہے۔اور۔۔‘‘۔۔۔نہیں جناب۔۔ پاگل نے جلدی سے بات کاٹ کر کہا۔۔اس نے خود کشی نہیںکی۔ وہ تو میں نے اسے پانی سے نکال کر سوکھنے کے لیے چھت پر رسی سے لٹکا دیا تھا۔ اب یہ بتائیے کہ میں گھر کب جا سکتا ہوں؟؟ اسی طرح ایک بار امریکا میں ہوائی جہاز موسم خراب ہونے کی وجہ سے غوطے کھانے لگا جہاز کے پائلٹ نے اپنا تجربہ لگا کرپہاڑوں کے درمیان سے آڑھے ترچھے کٹ مار کے جہاز کو بچا کے ائرپورٹ پہ لے آیا اس کو انعام سے نوازا گیا اور پوچھا گیا ایسا ٹیلنٹ اور تجربہ کہاں سے حاصل کیا تو وہ بڑی معصومیت سے سے بولا ۔۔میں پہلے لاھور میں رکشہ چلاتا تھا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔تاریخ گواہ ہے ’’برا مت ماننا‘‘’ بولنے والے نے آج تک کوئی اچھی لگنے والی بات نہیں کی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔