shows or khabro mein khabar ki jaga khuahish ne leli hai

شوزاور خبروں میں خبرکی جگہ خواہش نے لے لی ہے،رؤف کلاسرا۔۔

سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ  دوہزار پندرہ میں  ایک چینل جوائن کررہے تھے تو اُس وقت وزیراعظم ہاؤس سے چینل مالکان پر دباؤ تھا کہ رؤف کلاسرا اور عامر متین کو مت لائیں۔ اُن پر خاصا دباؤ ڈالا گیا لیکن مالکان کو شاید ہماری ضرورت تھی کہ چینل نیا تھا لہٰذا وہ اس دباؤ کو برداشت کر گئے۔ روزنامہ دنیا میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ انہی دنوں پیمرا کو بھی خاصا ایکٹو کیا گیا تاکہ چینلز اور اینکرز کو کنٹرول کیا جائے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ بعض اینکرز واقعی آسمان پر تھے اور غیرذمہ دارنہ گفتگو کررہے تھے۔ ٹی وی سکرین پر دو قسم کے صحافی اُس وقت پروگرام کررہے تھے‘ ایک وہ جو اُردو اور انگریزی پرنٹ جرنلزم سے آئے تھے۔ اُن کی تربیت پروفیشنل بنیادوں پر ہوئی تھی لہٰذا وہ پوری تسلی اور کنفرمیشن کے بعد خبر دینے کے عادی تھے۔ اُن کے پروگرام بالکل مختلف تھے اُن اینکرز سے جو بیٹھے بٹھائے اینکرز بن گئے۔ کیونکہ ٹی وی چینلز کی مارکیٹ بڑھ رہی تھی اور فیلڈ میں زیادہ تربیت یافتہ لوگ موجود نہیں تھے یوں محض لوگوں کی شکلیں دیکھ کر ٹی وی شوز دے دیے گئے اور ان کے ساتھ چند ریسرچر لگا کر انہیں ٹی وی پر بٹھا دیا گیا اور جو کچھ لکھ کر دیا گیا انہوں نے پڑھ دیا۔ یوں خبر اور جینوین تبصرہ غائب ہوتا چلا گیا اور شوز اور خبروں میں خبر کی جگہ خواہش نے لے لی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں