تحریر: خرم علی عمران۔۔
دنیا کے ہر شعبہ ء زندگی کی طرح شو بزنس کے بھی اپنے تقاضے،طور اور طریقے ہیں اور ایک عمومی طور سے آزاد روی کا ماحول اس شعبے میں پایا جاتا ہے اور ایک عام تاثر ہے کہ شو بزنس اور میڈیا کے انٹرٹینمنٹ سگمنٹ کے لوگ دین اور دینداری سے دور اور بے بہرہ ہوا کرتے ہیں جو کہ پوری طرح درست نہیں ہے۔ اس شعبے کے بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جوبالعموم باقاعد گی سے دینی فرائض ادا کرتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو بے شمار افراد کے لئے امداد کا وسیلہ بنتے ہیں اور خاموشی سے بہت سے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ زکوۃ،صدقات اور خیرات جیسے اعمالِ حسنہ چھپا کر کیا کرتے ہیں۔ حج اور عمرہ ادا کرنے والے بھی بے شمار خواتین و حضرات اس شعبے سے وابستہ ہیں جو آن اسکرین اور آف اسکرین دونوں طرح سے کام کرنے والے لوگ ہیں۔ تو اسی شعبے کے ایک ایسے ستارے کی بات کرتے ہیں جو دین اور دنیا دونوں کے لحاظ سے کامیاب رہا اور ہر دو مراحل پر اس چمکتے دمکتے ستارے نے دنیا کو اپنے دلفریب رنگوں سے مسحور کرکے رکھا۔
اس مہینے کی آے ٹی آرجہاز کے ہوائی حادثے نے دیگر چالیس بیالیس مسافروں کے ساتھ ساتھ ہمارے اس پیارے دوست اور بہت اچھے انسان کو ہم سے چھین لیا۔ اس نے بڑی بھرپور زندگی گزاری، دل دل پاکستان گاکر شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والا ایک گلوکار جسے بجا طور پر ہم پاکستان میں ایک نئے انداز کی جدید موسیقی کے معماروں میں شمار کر سکتے ہیں۔ اسکا گایا ہوا یہ ملی نغمہ اب تو پاکستان کے تقریبا قومی ترانے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور بی بی سی کے سروے کے مطابق ساری دنیا میں بیسویں صدی میں سب سے زیادہ سنے اور چلائے جانے والے نغموں میں دل دل پاکستان کا تیسرا نمبر ہے ۔ بے شمار نغمات اس کے علاوہ پہلے وائٹل سائنز نامی بینڈ کے ساتھ اور پھر سولو بنائے اور گائے اور دنیا بھر میں کنسرٹس اور فنکشنز میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور شہرت کی ان بلندیوں پر جا پہنچا جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہیں۔
جنید جمشید جب دولت اور شہرت کی بلندیوں پر تھا اور اسے ہر وہ دنیاوی نعمت حاصل تھی جس کا کوئی بھی پاکستانی نوجوان تصور کر سکتا ہے تب بھی اس نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اسے ایک نامعلوم سی بے چینی لاحق رہا کرتی تھی اور دل میں سکون نہیں تھا تو دل کے اسی سکون کی تلاش نے اسے مذہب کی جانب متوجہ کیا اور وہ دینی حلقوں سے روشناس ہوا اور پھر آہستہ آہستہ وہ بدلتا چلا گیا اور یہ بدلاؤ کوئی ایک دم نہیں آیا بلکہ ایک طویل کشمکش ہوئی ایک وہ طرز زندگی تھا جو جنید بھائی کو حاصل تھا جس میں دولت بھی تھی،شہرت بھی تھی آگے سے آگے نت نئی منزلوں اور فلموں کی بھی پیشکشیں موجود تھیں۔ فائیو اسٹار قسم کا وی آئی پی پروٹوکول اور لائف اسٹائل تھا غرض کہ تقریبا ہر دنیاوی نعمت موجود اور حاصل تھی لیکن دل کا چین اور سرمدی سکون نہ تھاتو دوسری طرف اسکے بلکل برعکس اور ایک سو اسی درجے کے زاویئے کے حساب سے الگ طرز زندگی تھا، جہاں سادہ زندگی تھی،اللہ کے راستے میں در در کی ٹھوکریں تھیں، بہت سے ضابطوں اور پابندیوں والی زندگی تھی۔ علمی مجالس اور دینی اجتماعات تھے، بزرگانِ دین کی صحبتیں تھیں اور بہت سی چیزوں اور باتوں سے خود کو الگ کرنا اور روکنا شامل تھا ۔
تو یہ دونوں طرز ہائے زندگی جب مقابلے پر آئے تو یہ جنگ، یہ مقابلہ یہ کشمکش کافی دیر، کافی دنوں، مہینوں اور سالوں تک چلتی رہی اور پھر آخر کار روحانی سکون کی تلاش کا یہ سفر سنگر جنید جمشید سے مذہبی اسکالر اور نعت خواں جنید جمشید بننے پر جاکر ٹہرا اور رکا۔ جنید بھائی کو اللہ پاک نے دنیاوی طور سے بھی ہر طرح نوازا اور دینی اعتبار سے بھی اور جب وہ دینی زندگی سے قریب ہوئے تو دلی چین سکون راحت و آرام کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے تھوڑی سی تنگی کے آزمائشی زمانے کے بعد جیسے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور مال و دولت اور ہر آسائش سے ایسے اور اتنا زیادہ نوازا جو پہلے دور سے بہت زیادہ تھا اور آج بھی ان کا کپڑوں کا برانڈ جے ڈاٹ ایک عالمی حیثیت کا حامل کپڑے کا پاکستانی برانڈ ہے۔ کہتے ہیں کہ بڑا جنازہ خوش بختوں اور جنتی لوگوں کا ہوا کرتا ہے تو جنید بھائی اس لحاظ سے بھی کامیاب ٹھہرے کہ ہزاروں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی جن میں دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے بڑی ہستیاں اور بڑے لوگ شامل تھے اور ان کا جنازہ ایک بہت بڑے عالم دین نے پڑھایا یہ سب حسن خاتمہ اور خوش بختی کی علامات ہوا کرتی ہیں۔
اپنی دوسرے دور میں یعنی ایک دینی شخصیت میں تبدیل ہوجانے کے بعد انہوں کے ایسا نہیں کیا کہ اپنے شو بز کے احباب سے قطع تعلق کر لیتے اور انہیں کسی قسم کی حقارت اور دوری یا کنارہ کشی کا رویہ اختیار کرتے بلکہ اس کے بلکل برعکس انہوں نے علماء کرام کے عمومی طرز عمل کے بلکل برخلاف میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی دین کی تبلیغ کے لئے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا، اپنی شخصی وجاہت،شہرت اور تعلق داری کے سبب ان کی رسائی شو بز سے وابستہ احباب تک بہت آسان تھی چنانچہ انہوں نے اس شعبے کے بہت سے افراد کو دین کی جانب راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی رمضان شریف میں کئی سال تک اے آر وائی سے کی گئی رمضان ٹرانسمشنز کون بھول سکتا ہے جو مذہبی ماحول لئے بین المسالک ہم آہنگی کا مرقع ہوا کرتی تھیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنید بھائی اس میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتے تھے جس کا اعتراف اس رمضان ٹرانسمشن میں انکے ساتھی اور دوست اور پاکستان کے مشہور اینکر جناب وسیم بادامی بھی کرتے ہیں۔ تو جنید بھائی سچ مچ میں ایک ایسا منفرد اور چمکدار ستارہ تھے جن کی چمک دمک ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی مدھم نہیں پڑٰی ہے۔(خرم علی عمران)۔۔