تحریر: خرم علی عمران
کچھ دنوں پہلے لکس اسٹائل ایوارڈ میں کچھ ایسا ہوا کہ ایک طوفان برپا ہے سوشل میڈیا پر حمایت اور مخالفت میں ایک زبردست مناظرہ جاری ہے بھلا کس بات پر کہ کامیڈین یاسر حسین نے اقرا عزیز نامی اداکارہ کو لکس اسٹائل ایوارڈ میں پروپوز کیا، چلو کیا سو کیا کوئی بات نہیں،اچھا کیا لیکن اس کے بعد جو کیا وہ ایک تہلکہ مچا گیا۔ ایسا پہلے بھی کئی بار مختلف شوز پر ہوا ہے شاید فلم فئیر ایوارڈ تھا یا کوئی اور انڈین فلم ایوارڈ جبہالی وڈ کے مشہور اداکار رچرڈ گئیر نے شلپا سیٹھی کے ساتھ اسٹیج پرہالی وڈ اسٹائل یا بلکہ امریکن اسٹائل میں بوسہ بازی کی اور سارے مشرقی لوگ باگ،سارے موجود انڈین خواتین وحضرات بالی وڈ کے بڑے بڑے ہیروز اور ہیروئنز تالیاں پیٹتے پیٹے خوشی سے نہال اور بے حال نظر آرہے تھے ۔ اس واقعے سے پہلے اور بعد بھی اسطرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے اس میں واویلا مچانا کیسا بھیا۔ دراصل شو بز اور الیکٹرانک میڈیا کی سب سے بڑی اخلاقیات یہی ہے کہ اس کی کوئی مستقل اخلاقیات نہیں ہے ۔ میڈیا کی اخلاقیات کی مثال اگر ہم پانی سے دیں تو بے جا نہ ہوگا کہ جس پرتن میں ڈالو ویسی ہی شکل اختیار کرجاتا ہے تو شوبزمیڈیا کی سب سے بڑی اخلاقیات حالات کے مطابق چلنا اور ریٹنگ لینا ہے جو بکے وہ کام کا۔
اب اگر ان آرگیومنٹس کو دیکھا جائے جو مخالفت میں دیئے جارہے ہیں کہ یاسر حسین کو کھلے عام بوسہ بازی نہیں کرنا چاہیئے تھی ،آخر ہماری بھی کچھ اقدار کچھ ویلیوز ہیں تو بھائی میرے کون سی اقدار کیسی ویلیوز؟ اگر آپ اسلامی اقدار کی بات کررہے ہیں تو اس کے حساب سے تو سارا شو ہی بلکہ سارا شو بز ہی غیر اسلامی اور حرام ہے۔ تو اس حساب سے تو بات ہی مک گئی فیر تے ساری، اور اگر کچھ مشرقی تہذیبی اقدار کی بات ہے تووہ بھی اب بس لب دم ہی ہیں اس دنیائے رنگ و فسوں میں۔ شو بز کے دیدہ ور ،آشنا اور شناسا جانتے ہیں کہ اس بظاہر چمکتی دمکتی دنیا میں پس پردہ کیا کیا کچھ عمل میں نہیں آتا۔ اب نیٹ کی وجہ سے سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں ویڈیوش موجود ہیں اور ویب سائٹس کاسمندر ہے جن میں کیا کیا کچھ نہیں کیا اور کہاجارہا۔ تو اگر آپ شو بز کے لوگوں سے ایک مرد مومن والی مثالی زندگی کی توقع رکھیں گے تو یہ تو پھر زیادتی ہوگی نا یا نہیں؟ میں یہ قطعا نہیں کہہ رہا ہوں کہ شو بز میں سارے ہی لوگ آزاد رو، مغربی لائف اسٹائل کے دلداہ اور عیاشی پسند یا اخلاقیات سے بے بہرہ ہیں کیونکہ یہ نا انصافی ہوگی کہ آپ خاندانی تعلیم یافتہ ،مہذب اور اخلاقیات پر کاربند پانچ فیصد لوگوں کی وجہ سے اس شعبے کے پچانوے فیصد لوگوں کو مطعون کرنا شروع کردیں۔
بھئی ان بے چاروں کی بھی تو سنیں ان کا سب سے بڑا آرگیومنٹ اور سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ جی ہماری زندگی ہے ہم جیسے چاہے بسر کریں آپ کون ہوتے ہیں خدائی فوجدار بننے والے،قاضی جی دبلے کیوں شہر کے اندیشے میں۔ بات تو بظاہر معقول لگتی ہے لیکن اس آرگیومنٹ کے دینے والے ایک قانون کو بھول جاتے ہیں جو یہ ہے کہ آپ کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوجاتی ہے۔ یہ والا بھی انسانی حقوق کے علم برداروں کا ہی ایک آرگیومنٹ ہے جو پیش کیا گیا۔ تو شوبز کے لوگ ذرا اگر حدود و قیود کا خیال کریں اور کھلے عام پپیاں جھپیاں ڈالنے سے احتراز کریں تو بہتر نہیں ہوگا کہ بہت سے ناپختہ ذہن اور نوجوان نسل انہیں فالو کرتی ہے۔ میں دینی حوالے سے کوئی بات کرنے یا فتوی دینے یا کسی کا عمل جائز یا ناجائز کہنے کے نہ تو لائق ہوں نہ ہی یہ میرا منصب ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اگر بلی کو یہیں نہیں مارا گیا تو آہستہ آہستہ غیر اخلاقی اعمال کی یہ وبا پھیلتی ہی چلی جائے گی اور پھر یہ بے راہ روی کی بلی اخلاق و تہذیب کے برتن کا سارا دودھ ڈکار جائے گی۔
یہاں یادش بخیر مجھے ایک چھوٹا سا حوالہ یاد آرہا ہے کہ مشہور صحافی حسن نثار ایک پروگرام چوراہا کیا کرتے تھے،یاد ہوگا لوگوں کو ضرور اور یاسر پیرزادہ بھی اس میں شریک ہوا کرتے تھے، میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ عطاالحق قاسمی صاحب کو بطور مہمان بلایا گیا، وہ بیٹھے اپنے مخصوص انداز میں شگوفے چھوڑ رہے تھے کہ فلم کو اسلامی اور غیر اسلامی قرار دینے کے حوالے سےیاسر اور حسن صاحب میں انسانی حقوق اور آزادی کی حدود پر بحث شروع ہوگئی اور دونوں نے اپنے اپنے آرگیومنٹس دینا شروع کردیئے جن میں محترم حسن نثار صاحب جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس قسم کا موقف اپنے جوشیلے انداز میں پیش کررہے تھے کہ سب کو اپنے اپنے حساب سے آزدی سے زندگی گزارنے کا حق ہے اور یہ عاقل بالغ انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی زندگی گزارے اوراپنی ذات کی حد تک جو چاہے کرے۔ یاسر پیرزادہ دبے دبے انداز میں مخالف نقطہء نظر پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر بات بن نہیں پارہی تھی تو جناب قامسی صاحب نے استادی داؤ کھیلا اور بولے کہ یار حسن اگر تیری بات مانیں تو پھر تو اس ملک میں پورن سنیماز بھی ہونے چاہیئیں نا کیونکہ یہ دیکھنا بھی تو بہت سے لوگ اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ اور میں نے زندگی میں بہت کم حسن نثار کو لاجواب ہوتے دیکھا ہے اور یہ لمحہ انہی میں سے ایک تھا۔ تو بھائی میرے! مادر پدر آزادی کو کہیں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا یہاں تک کہ آزاد ترین معاشروں میں بھی کچھ حدود و قیود عمر وغیرہ کے حوالے سے ضرور قائم رکھی گئی ہیں کہ ایک مخصوص عمر تک آپ کچھ چیزوں کو بلکل ٹچ نہیں کرسکتے یہ جرم شمار ہوتا ہے۔ تو بھائی مشہور بنو ریٹنگ اور فیم خوب حاصل کرو مگر آپے اور جامے سے باہر ہوکر اور غیر اخلاقی منفی طریقوں سے نہیں بلکہ اپنی محنت اور ٹیلنٹ سے۔ مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے۔۔۔ہم نیک و بد حضور کو سنجھائے جاتے ہیں۔۔(خرم علی عمران)۔۔
(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)