shopping ke mujrib nuskhay

شاپنگ کے مجرب نسخے(طنزومزاح)

تحریر: سید عارف مصطفیٰ

افسوس ۔۔۔ اس دنیا میں کچھ لوگ اب بھی ایسے ضرور باقی ہیں کہ جو شاپنگ کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔۔۔ اور ایسےہی لوگ عام طور پہ دکانداروں سے ان کی صلاواتوں کی سوغات کے سوا کچھ نہیں لے پاتے۔۔۔ کم خرچ بالا نشیں قسم کے یہ لوگ تو بازار جانے سے بہت بچتے ہیں اورگھر بیٹھے پرانے پاجامے کی رومالی سے ہی کئی رومال بنالیتے ہیں اور کفایت و خوش سلیقگی کی داد پاتے ہیں، لیکن خواتین کا معاملہ اور ہے جو خواب میں بھی شاپنگ مال ہی میں پائی جاتی ہیں ۔۔۔ رہی نئی نسل تو اس کے لئے بازار جانے سے زیادہ بازار جانے کی تیاری اہم ہے- بقول چغتائی وہ تو 50 روپے کا رومال لینے کیلیئے گھنٹہ بھر پہلے گاڑی خوب چمکاتے ہیں پھر اس کی چمک میں اپنا منہ دیکھ کر بازارپہنچنے سے پہلے پہلے حسب توفیق ہزار پانچ سو کا فیشیئل کروانا نہیں بھولتے ۔۔۔ – تابش کی ماہرانہ رائے یہ ہے کہ ان بالکوں میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو بازار جاتے تو محض آنکھیں سینکنے کو ہیں لیکن پھر واپسی پہ گھر پہ بیٹھ کر خود کو سینکنے کے بہت سے کام اٹھا لاتے ہیں، اماں باوا انکی نقاہت کا سبب فلو بتاتے ہیں مگر چپکے چپکے ٹنکچر آیوڈین اور پٹیاں یا پپھر یونانی دواخانے سے آنبہ ہلدی اور چوٹ سجی خریدتے پائے جاتے ہیں۔۔

شاپنگ کی مد میں اہم ترین بات ہی یہ ہے کہ شاپنگ تو درحقیقت ہوتی ہی خواتین کی بدولت ہے جو بازار میں کہیں اشیاءکی خریدار ہیں تو کہیں جلوؤں کی دکاندار۔۔۔ ایماندارانہ تناسب سے دیکھیں‌ تو بازار میں ہر دو مردوں کے حصے میں ایک ہی خاتون آپاتی ہے پھر بھی ساری گرمئی بازار انہی کے دم سے ہے اور وہاں سب مردوں کی بھرمار انہی کے دم سے ہے-اس میں کیا شک ہے کہ شاپنگ زیادہ تر خواتین کیلیئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے” ۔۔۔ چغتائی کا کہنا یہ ہے کہ “شاپنگ ایک ایسے مقوی ٹانک کی مانند ہے کہ جسکی ضرورت ہر خاتون کو وقفے وقفے سے پڑتی رہتی ہے” کیونکہ یہ شاپنگ ہی کا اعجاز ہے کہ گھر میں لنگڑاتی ، کرُلاتی ، رینگتی اور درد کی مار سے کراہتی ہوئی خواتین بھی بازار جانے کے نام پہ یکایک چوکس ایتھلیٹ بن جاتی ہیں اور ‘من میں اٹھی نئی ترنگ ناچے میرا انگ انگ ‘ کی تفسیر بن جاتی ہیں اور دکانوں دکان منڈلاتے ہوئے انکی کراہٹیں مسرت انگیز کلکاریوں میں بدل جاتی ہیں۔۔۔ اس حوالے سے تابش کی بدگمانی یہ ہے کہ آئی سی یو میں بے بس پڑی خاتون کو بھی اگر لان کی لوٹ سیل کا مژدہ سنادیا جائے تو وہ سب تام جھام وہیں پھینک پھانک ، شاپنگ مال کی سمت بھاگ نکلے گی-

یہاں یہ اہم بات بتانا بھی بیحد ضروری ہے کہ شاپنگ کیلیئے بازار جانے کو ہرگز معمولی نا سمجھا جائے۔۔ اور خواتین کے نزدیک تو کاموں کی دنیاوی فہرست میں بلحاظ درجہ یہ سب سے اوپر ہے- اورچونکہ ہر اہم کام کے کچھ ضابطے اور قوائد ہوا کرتے ہیں چنانچہ بازار جانے کے بھی کچھ قاعدے قانون ہیں- یہاں ہم ان کا خلاصہ پیش کرنے کا جوکھم اٹھارہے ہیں- اس کاوش میں کافی ہاتھ بھائی تابش اور چغتائی سے ہم تک منتقل ہونے والے مجرب نسخوں کا ہے ، لیکن بنیادی نسخہ بلکہ کلید کامیابی بےتحاشہ خود اعتمادی ہے اور بے حساب ڈھٹائی سے مشروط ہے- بازار جانے کے سلسلے میں پہلا و آزمودہ قائدہ تو یہ ہے کہ چمکتی دمکتی باسکٹ کا استعمال ترک کردیں – بازاری ماہرین کے نزدیک اس ضمن میں کپڑے کے تھیلے کا استعمال پسندیدہ ہے، کہ جس کے ہر دھاگے سےمسکینی جھلکتی ہے اور دوچار بار کے استعمال پرنمودار ہوجانے والے پھونسڑے تواسے فقیری کشکول کے قریب تر لے آتے ہیں اور دکاندار کی خدا ترسی کو ابھارنے میں مددگار ہوتے ہیں۔۔

بہتر یہ ہے کہ دو تھیلے ساتھ لے لیں اور ان کواتنا نا بھرلیں کہ واپس جاتے سفر میں چنداشیا تھیلے سے اچک کرباہر جا پڑیں۔۔ دھیان رہے سڑک پہ کھوئے پڑے سامان کوڈھونڈھنا بھوسےمیں سوئی کو کھوجنے کے برابر ہے اور اسے ڈھونڈھنے کے عمل کا حاصل ذلت و تھکن کے سوا کچھ بھی نہیں ہوا کرتا ۔۔۔۔ یہ نوٹ کرلیں کے بازار میں داخل ہونے سے قبل چہرے پہ مسکینی لانا بہت ضروری ہے لیکن مناسب مقدار میں کیونکہ اگر یہ مقدار مقررہ معیار سے بڑھ گئی تو آپ دیرینہ بیروزگار یا دائم ُفُقرے معلوم ہوں گےاور ہر دکاندارآپ کو اپنے تھڑے کی طرف آنے سے پہلے ہی ہشکار دے گا- بس اتنی ہی عاجزی کافی رہےگی جو مہینے کی آخری تاریخوں میں آپکے برتاؤ اور لہجے میں خود بخود شامل ہوجاتی ہے ۔۔۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی پتلون کو بیلٹ سے کس لیجئے پھر بھی مزید احتیاط کی غرض سے اشیاء کی قیمتیں پوچھتے وقت پتلون کو ذرا ایک طرف سے مضبوطی سے پکڑ لینا یاد رکھیئے –

فائدے اور قاعدے کی رو سے شاپنگ کا اک اہم گر یہ ہے کہ دکاندار کسی چیز کی جو بھی قیمت بتائے اس کے بارے میں پورا بھروسہ رکھیں کہ وہ غلط ہے،،اس لیئےفوری جرح کا آغاز کریں اور بتائی گئی قیمت کومحض ایک چوتھائی کی سطح پہ لانے کی کاوش شروع کردیں ۔۔۔ وقت کی قیمت سے آگاہ عاقل دکاندار اپنے حواس مکمل کھودینے اور اعصاب چٹخ اٹھنے سے پہلے پہلے قیمتیں کافی کم کرہی دیا کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے بحثیئے گاہکوں خصوصاً خواتین کی شک اور تکرار کی انتھک صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں پہلے ہی بہت بڑھا چڑھا کر بتایا ہوتا ہے۔۔۔اب اگر کوئی نااہل ان تاریخی رویات کے ہوتے ہوئے بھی دکانداروں سے طویل جرح نا کرسکے تو یہ اسکی قطعی پرائیویٹ بدقسمتی ہے- یہ بازار ہی کا سحر ہے کہ خواتین عام طور پہ کسی چیز کے دام 700 بتانے پہ 500 میں تو خرید ہی لیتی ہیں اور اپنی اس ہنرمندی اور طراری پہ جھوم جھوم جاتی ہیں، جبکہ صرف تین سو میں لی گئی شے کے 500 میں بک جانے پہ دکاندار کے پھیپھڑے بھی داد کے لیئے آپس میں تالی بجاتے ہیں- تاہم گھر پہ خواتین کی خریداری کے تیور کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔۔۔ جیسے اگر کوئی قالین فروش گلی میں قالین کاندھے پہ لادے وہاں آنکلے تو اس کی جانب سے 10 ہزار قیمت بتانے پہ ، اس پررگڑ کے سب حربے آزماڈآلتی ہیں حتیٰ کہ اسے صرف 4 ہزار تھما کرقالین دبوچ کر جھٹ پھاٹک بند کردیتی ہیں اور اس کامیاب ڈیل پہ اندر خوشی سے بےحال ہوئی جاتی ہیں۔۔۔ ادھر دوسری طرف پندرہ سو کا قالین 4 ہزار میں بک جانے پہ قالین والا بھی واپسی پہ فرط مسرت سے درجنوں بارسرور و کیف کے لوٹے لگاتا ہےاور انبساطی پٹخنیاں کھاتا ہے –

سیانوں کے مطابق شاپنگ میں‌سب سے بڑا رتبہ عید کی شاپنگ کا ہے جس کی تکمیل بازار کے کئی چکر لگائے بغیر ممکن ہی نہیں- اس خریداری کی خاطر آپ ہرہر دکان پہ جائیں اور مطلوبہ شے کی قیمت پوچھنے کے بعد اسکی بہت ہی کم قیمت لگا ئیں اور دکاندار کے انکار پر دکان سے جھٹ پٹ باہر نکل آئیں اور پھر نہایت “چوکنی بے نیازی” سے اس دکان کے سامنے سے بار بار گزریں ایسے میں ہاتھ میں کوئی کی چین گھمانا آپکی بےنیازی کو مزید موثر بناسکتا ہے،،، آپکی اس درجہ بےنیازی سے خود دکاندار کی نظر میں اپنی اس شے کی قدروقیمت حددرجہ گر بھی سکتی ہے ۔۔۔ یا اگر وہ ذرا بھی خداترس ہوا تب بھی آپکے ان چکروں سے چکرا کر اور ترس کھاکر وہ آپکو پھر سے اندر آنے کے لئے چمکار سکتا ہے- ایک دوسرا طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے ساتھ کسی کو لے جائیں اور وہ آپکی مطلوبہ چیز کو شوکیس سے نکلواکر ملاحظہ کرنے کے دوران فٹافٹ اس شے میں کم از کم 2 درجن عیب برملا نکالے، خاصا امکان ہے کہ اس عمل سے دکاندار کا دل بھی کھٹا ہوگا اور بعد میں دانت بھی

آخر میں چیزوں کو کم قیمتوں میں حاصل کرنے کا یہ آزمودہ طریقہ بھی بتاتے چلیں کہ ہمیشہ گروپ کی شکل میں دکان پہ جائیں،، دکاندار کی باچھیں حسب توفیق وگنجائش ضرور کھل جائیں گی- گروپ کو دیکھ کر دکاندار بڑی مقدار میں خریداری کے فریب میں قیمتیں بہت مناسب لگاتے ہیں – قیمت معلوم ہوتے ہی گروپ کا ہر فرد بیحد کم قیمت کی ادائیگی کی پیشکش کرڈالے اور دکاندار سے بلند آواز میں پسینہ پرور مباحثہ شروع کردے اور اس دوران دکاندار کو کسی اور گاہک کی طرف بالکل متؤجہ ہونے ہی نہ دے یوں قوی امید ہے کہ تھکا مارا گیا دکاندار اس گروپ سے جان چھڑانے کے لئے امن و سکون کی یہ قیمت ادا کردےگا اور بتائی گئی پیشکشوں کو قبول کرلےگا ۔۔۔ یہ ایسا آزمودہ نسخہ ہے کہ جسے خواتین ہیر پھر کے بار بار استعمال کرتی ہیں اور ہر بار دکاندار کو کچھ نیا طریقہء نجات سوچنا پڑتا ہے – لیکن اس سے شاپنگ کے وولوں کی آنچ کم نہیں ہوتی اور نئے حربوں کی تلاش جاری رہتی ہے ۔۔۔ آپ بھی ہربار کوئی شرطیہ نیا پینترا سوچ کے جائیں کہ آخر وہاں مقابلہ بھی تو برابر کا ہے اور پھر گھمسان کا رن یقینی ۔۔۔(سید عارف مصطفی)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں