(خصوصی رپورٹ)
اسلامی مملکت خداداد پاکستان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں ایک جیسے مقدمات میں کمزور کیلئے سختی کا قانون اور طاقتور کیلئے نرمی۔ اس کی ایک مثال ’’ایگزٹ‘‘ کے مالک شعیب شیخ کی ہے جس پر یہ الزام ثابت ہوگیا کہ اس کی کمپنی نے ہزاروں جعلی ڈگریاں دنیا بھر میں فروخت کیں جس میں ایک مقدمے میں مرکزی ملزم شعیب شیخ سمیت دیگر ملزمان کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی گئی مگر اس کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش کسی بھی ادارے نے نہیں کی اور وہ آج بھی آزادانہ گھوم رہا ہے اور یہی نہیں بلکہ باقاعدگی سے کراچی کے دفاتر میں آمدورفت جاری ہے جبکہ راولپنڈی کی عدالت جس نے سزا سنائی تھی، وہاں ایف آئی اے نے مجرم کو مفرور ظاہر کیا ہے۔ جعلی ڈگری فروخت کرنے کے الزام میں راولپنڈی میں ایک اور کراچی میں اس حوالے سے ایک اور 17 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک مقدمہ درج ہوا۔ رواں ماہ کے اوائل میں راولپنڈی کی عدالت نے زیر دفعہ 470-471، 468، 419-420 کے مقدمے میں مرکزی ملزم شعیب شیخ اور شریک ملزمان کو سات برس کی سزا سنائی۔ فیصلے کے وقت مرکزی ملزم عدالت میں حاضر نہیں تھا۔ فیصلے کے بعد ایف آئی اے راولپنڈی کے حکام نے اس کی گرفتاری کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی ٹیم کو گرفتاری کیلئے کراچی روانہ کیا اورا ب مجرم کو مفرور بیان کیا ہے۔ دوسری طرف کراچی میں جاری جعلی ڈگری مقدمہ جو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ساؤتھ VIII محترمہ سارہ جونیجو کی عدالت میں زیرسماعت ہے اس میں صرف دو گواہوں کے بیان باقی ہیں جس میں وہ جج جس نے نو یوم تک جعلی ڈگریوں کی گنتی اور ضبطگی کے کاغذات تیار کیے اور یہ ڈگریاں 20 لاکھ سے زائد تعداد میں تھیں اور مقدمے کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر سعید میمن کے بیان باقی رہ گئے ہیں اور ان بیانات کے بعد فیصلہ آجائے گا مگر اس عدالت میں بھی ملزم شعیب شیخ پیشیوں پر آنے سے اجتناب کرتا رہا ہے جس کا معزز عدالت نے سخت نوٹس لیا۔ جبکہ منی لانڈرنگ مقدمے میں بھی ملزم عدالت میں پیش ہونے سے اجتناب برتتا رہا اور مذکورہ عدالت اے ڈی جے IX کے معزز جج جناب حفظ الرحمن نے بھی سخت نوٹس لیا جس کے بعد ملزم کے وکیل نے ایک سادہ صفحے پر ہاتھ سے تحریر کی گئی ایک درخواست دی کہ میرے موکل کو حاضری سے اسثثنی دیا جائے کیونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں راولپنڈی کے فیصلے کے خلاف اپیل دائرے میں مصروف ہیں لہٰذا ’’انصاف‘‘ کی خاطر ان کو استثنی دیا جائے۔ اس کے علاوہ 17 کروڑ کے منی لانڈرنگ مقدمے کے علاوہ اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں بھی ایک اور منی لانڈرنگ کی انکوائری گزشتہ کئی ماہ سے ’’نامعلوم دباؤ‘‘ کی وجہ سے زیرالتوا ہے اور اس میں کوئی بھی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی جبکہ 17 کروڑ منی لانڈرنگ والے مقدمے میں بھی کافی گواہاں کے بیان قلمبند نہیں ہوسکے ہیں جبکہ معزز سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ایایگزٹ کمپنی نے اپنے چینل کے ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں 10 کروڑ روپے بھی جمع کروا دیئے تھے۔ کراچی کے دونوں مقدمات کی عدالتوں کے سخت سرزنش کے بعد اب اگلی سماعت 13 اگست کو ہوگی۔۔(بشکریہ جنگ)